Maktaba Wahhabi

22 - 148
پہلی دلیل: تاریخ و روایت جس کی گواہی بہترین اور اس کی خبر سب سے بڑھ کر سچی ہے،کی یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ قرآن کریم حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اورعثمان رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں تدوینِ مصاحف سے قبل بھی اپنی تمام تر قراءات اورروایات کے ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سینوں میں محفوظ تھا۔اورقرآنی قراءات وروایات کا معاملہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہاں معروف تھا۔وہ جانتے تھے کہ قرآن کریم سات حروف پر نازل ہوا ہے۔ عہد رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان ساتوں حروف کے مطابق قرآن کی قراء ت کرتے رہے۔یہ ایسی مسلمہ حقیقت ہے کہ صحیح احادیث اور صریح آثار اس پر شاہد عدل ہیں،جن کی اسانیدہر قسم کے سقم اور تنقید سے مبرا ہیں۔ذیل میں ہم وہ متواتر اور قطعی احادیث پیش کر رہے ہیں تاکہ شک وشبہ کی گرد چھٹ جائے اور یہ حقیقت پوری طرح مبرہن ہوجائے کہ قراءات کا تمام تر دارومدار روایت اور سماع پر تھا۔ تعددِ قراءات اور اختلاف قراء میں کسی بھی فرد و بشر کو ذرا دخل تھا،نہ اس رسمِ عربی کا اس میں کوئی کردار تھا کہ جس میں یہ مصاحف لکھے گئے تھے۔ حدیث نمبر:1 عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أَقْرَأَنِی جِبْرِیلُ عَلَی حَرْفٍ فَرَاجَعْتُہُ،فَلَمْ أَزَلْ أَسْتَزِیدُہُ وَیَزِیدُنِی حَتَّی انْتَہَی إِلَی سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ)) [1] ’’جبریل علیہ السلام نے مجھے قرآن کریم ایک حرف کے مطابق پڑھایا۔تو میں ان سے برابر تکرار کرتا رہا اور ان سے زیادہ حروف کا مطالبہ کرتا رہا اور وہ اللہ سے حکم پا کر حروف کو بڑھاتے رہے،یہاں تک کہ سات حروف تک پہنچ گئے۔‘‘ حدیث کے بعض الفاظ کی تشریح: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان:’’ فَرَاجَعْتُہُ‘‘ کی تشریح صحیح مسلم کی اس حدیث
Flag Counter