Maktaba Wahhabi

140 - 148
کے انتخاب کی اجازت تھی تو پھر قرآن کریم کا یہ اعجاز کہ اس جیسی ایک سورت بنا کر لے آؤ،کا مقصد ختم ہو جائے گا۔ ٭ اگر گولڈ زیہر کی بات درست مان لی جائے تو قرآن کریم اور حدیث قدسی کے درمیان کوئی فرق باقی نہیں رہتا،حالانکہ تمام علماء اس پر متفق ہیں کہ ان کے درمیان بہت فرق ہے۔ اورایک اہم فرق یہ ہے کہ قرآن کریم کے الفاظ ومعانی دونوں اللہ کی طرف سے بذریعہ وحی نازل ہوئے ہیں،جبکہ حدیث ِقدسی کا صرف مفہوم اللہ کی طرف سے نازل ہوتا تھا،الفاظ کے انتخاب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رعایت حاصل تھی۔ ٭ اگر گولڈ زیہر کی اس بات کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر بتائیے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مصاحف کی تدوین اور باقی ماندہ صحیفوں کو نذر آتش کرنے کا جو حکم دیا تھا،اس کا کیا جواز تھا ؟ باقی جہاں تک عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب قراء ۃ ’’أرشدنا‘‘ کا تعلق ہے،توحقیقت یہ ہے کہ یہ قراء ۃ نہیں،بلکہ ان کی طرف سے لفظ ’’اہْدِنَا‘‘ کی تفسیر ہے،جیساکہ امام حسن بصری رحمہ اللہ نے سورۃ مریم کی آیت﴿وَإِنْ مِنْکُمْ إِلَّا وَارِدُہَا﴾ میں لفظ ’’وَارِدُ‘‘ کی تفسیر ’’داخل ہونا‘‘ سے کی ہے کہ ہر شخص جہنم میں داخل ہو گا۔ باقی رہا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول،جو گولڈ زیہر نے اپنے حق میں پیش کیا ہے تو در حقیقت یہ گولڈ زیہر کے نقطہ نظر کے خلاف ایک زبردست دلیل ہے۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا فرمان:’’کما علمتم‘‘ عین کی پیش کے ساتھ ہے،عین کی زبر کے ساتھ نہیں،جیساکہ گولڈ زیہر کا خیال ہے۔ اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا کہ ’’میں نے قراء کو سنا اور انہیں ایک دوسرے کے قریب قریب پایا ہے،اور قراءات کا باہم تعلق ایسے ہی ہے جیسا کہ ’’ہلم‘‘ اور ’’تعال‘‘ کا ہے۔‘‘بالکل حقیقت پر مبنی ہے،کیونکہ قراءات کا ایک بڑا حصہ،معنوی اعتبار سے قریب قریب ہے۔ ’’ہلم‘‘ اور ’’تعال‘‘ کی طرح ان کے معنی ومفہوم میں کوئی تضاد نہیں ہے،جیسا کہ ’’فتبینوا‘‘ اور ’’فتثبتوا‘‘ کی قراء ۃ ہے۔ بلکہ اکثر قراءات معنوی اعتبار سے متفق ہیں،دو
Flag Counter