Maktaba Wahhabi

134 - 148
وَلَا مِنْ خَلْفِہِ تَنْزِیلٌ مِنْ حَکِیمٍ حَمِید﴾ یعنی’’ باطل اس کے آگے سے راہ پا سکتا ہے نہ پیچھے سے،کیونکہ یہ حکیم و حمید ذات کی طرف سے نازل کیا گیا ہے۔‘‘ اور﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ﴾ یعنی ’’ہم نے ہی اس ذکرکو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔‘‘ نیز ابن عباس رضی اللہ عنہ و دیگر کی طرف اس روایت کے غلط منسوب ہونے کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ کلامِ عرب میں لفظ ’’ تَسْتَأْنِسُوا‘‘ کا مفہوم اور توجیہ بالکل واضح ہے۔اس کی دلیل یہ ہے کہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر کھڑے ہو کر ان الفاظ میں اجازت طلب کی:((َٔسْتَأْنِسُ یَا رَسُولَ اللّٰہ)) [1] ’’اے اللہ کے رسول!کیا مجھے اندر آنے کی اجازت ہے؟ اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ لفظ ’’إستأنس‘‘ عربی زبان میں ’’إستأذن‘‘ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ تو عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھلا کیسے غلط قرار دے سکتے تھے؟ نیز اس روایت کے خود ساختہ ہونے کی ایک اہم دلیل یہ بھی ہے کہ ابن ابی حاتم،ابن الانباری،ابن جریر اور ابن مردویہ رحمہم اللہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کے بارے میں نقل کیا ہے کہ انہوں نے ’’ تَسْتَأْنِسُوا‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا:’’صاحب خانہ میں سے جو اجازت دینے کا مجاز ہو،اس سے اجازت طلب کر لو۔‘‘ ان دلائل سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ’’ تَسْتَأْذِنُوا‘‘ کو بطور تفسیر ذکر کیا ہے بطور قراء ت ذکر نہیں کیا۔ ہم اس بحث کا اختتام ابو بکر محمد بن بشار الانباری رحمہ اللہ کے اس حوالے سے نہایت موزوں اقتباس سے کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں: ’’اہل فضل ودانش ہمیشہ سے حق و انصاف کے مطابق قرآن کریم کے شرف اور اس کے عظیم الشان مقام کا اعتراف کرتے رہے اور ملحدین کی دسیسہ کاریوں،گمراہوں کی تلبیسات اوراہل باطل کی تحریفات کو بے نقاب کرتے رہے ہیں۔
Flag Counter