Maktaba Wahhabi

127 - 148
دیکھی ہے،اس بنیاد پر ہم اس کی چوری کی گواہی دے رہے ہیں۔ ‘‘﴿وَمَا کُنَّا لِلْغَیْبِ حٰفِظِینَ﴾ یعنی ’’باقی غیب کی نگہبانی تو ہم کر نہ سکتے تھے۔یعنی جب ہم نے آپ سے عہدو پیمان کیا تھا،اس وقت ہمیں معلوم نہ تھا کہ آپ کا بیٹا چوری کر لے گا۔ اور نبی کا بیٹا ہونا اس جرم کے سامنے روک نہ بن سکے گا۔‘‘ اس سارے سیاق و سباق سے بھی قراء ۃ متواترہ کی تائید ہوتی ہے کہ انہوں نے واقعی بنیامین کو چوری کا مرتکب قرار دیا تھا۔ اسی لیے انہوں نے﴿وَمَا شَہِدْنَا إِلَّا بِمَا عَلِمْنَا﴾ کے الفاظ کو اپنے دعوی کے اوپر بطور دلیل پیش کیا۔ اگر ثانی الذکر قراء ۃ کو تسلیم کیا جائے تو پھر﴿وَمَا شَہِدْنَا إِلَّا بِمَا عَلِمْنَا﴾ اور﴿وَمَا کُنَّا لِلْغَیْبِ حٰفِظِینَ﴾ کے ساتھ ثبوت پیش کرنے کی کوئی وجہ اور ضرورت نظر نہیں آتی،کیونکہ محض الزام کسی دلیل و ثبوت کا محتاج نہیں ہوتا۔اگر برادران ِبنیامین باپ سے یہ کہنا چاہتے تھے کہ آپ کے بیٹے پر محض جھوٹ کا الزام ہے تو اس پر باپ کو بیٹوں سے ثبوت طلب کرنے اوران کی طرف سے ثبوت پیش کرنے کی قطعاً کوئی وجہ نہیں بنتی۔برادران کی طرف سے پوری وضاحت کے ساتھ ثبوت پیش کرنے کا واضح مطلب یہ ہے کہ وہ بنیامین کو واقعی چوری کا مرتکب سمجھتے تھے۔لہٰذا ثابت ہوا کہ آیات کے سیاق و سباق کے اعتبار سے بھی اول الذکر قراء ۃ ہی درست ہے۔ نیز گولڈ زیہر کی روایت کے مطابق خلیفہ مستنصر کا اس قراء ۃ کو پسند کرنااور اس کے حق میں یہ الفاظ کہناکہ ’’یہ قراء ت اولادِ انبیاء کو کذب بیانی کے داغ سے مبرا قرار دیتی ہے۔‘‘ ہمیں اس روایت کے ثبوت میں شک ہے۔اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی ثقہ اور مستند عالم نے اس روایت کو بیان نہیں کیا۔دوسری وجہ یہ کہ اس میں خلیفہ کے یہ الفاظ کہ ’’یہ قراء ۃ اولادِ انبیاء کو کذب بیانی کے داغ سے مبرا قرار دیتی ہے‘‘ اس روایت کو مشکوک بنا رہے ہیں۔یہ الفاظ واقعہ کے مطابق نہیں ہیں۔ بظاہر خلیفہ کو یوں کہنا چاہیے تھا کہ یہ قراء ۃ اولادِ انبیاء کو چوری کے داغ سے مبرا قرار دیتی ہے۔کیونکہ اول الذکر قراء ۃ میں بنیامین کی طرف چوری کی نسبت کی گئی ہے،اس میں بھائیوں کے بارے میں کذب بیانی کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
Flag Counter