Maktaba Wahhabi

108 - 148
تھا۔نیز ’’نَنْسَاہا‘‘ کے ضبط کے ساتھ کسی قراء ۃ کا کوئی وجود نہیں ہے۔ قراءات متواترہ،صحیحہ،شاذہ اور دیگر ضعیف اور موضوع قراءات میں اس قراء ۃ کا کوئی وجود نہیں ہے۔باقی حضرت سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا اس قراء ۃ کو رد کرنا اور یہ کہنا کہ قرآن کریم مسیب رحمہ اللہ اور آل مسیب پر نازل نہیں ہوا،ان کا یہ رد عمل اس وجہ سے نہیں تھا کہ اس قراء ۃ میں کوئی معنوی بگاڑ ہے،بلکہ اس وجہ سے تھا کہ یہ قراء ۃ صحیح ثابت نہیں ہے۔ (۷)۔ ساتویں مثال جو گولڈ زیہر نے اس حوالہ سے پیش کی ہے،وہ سورۃ المائدۃ کی یہ آیت مبارکہ ہے: ﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا شَہَادَۃُ بَیْنِکُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَکُمُ الْمَوْتُ حِینَ الْوَصِیَّۃِ اثْنَانِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْکُمْ أَوْ آخَرَانِ مِنْ غَیْرِکُمْ إِنْ أَنْتُمْ ضَرَبْتُمْ فِی الْأَرْضِ فَأَصَابَتْکُمْ مُصِیبَۃُ الْمَوْتِ تَحْبِسُونَہُمَا مِنْ بَعْدِ الصَّلَاۃِ فَیُقْسِمَانِ بِاللّٰہِ إِنِ ارْتَبْتُمْ لَا نَشْتَرِی بِہِ ثَمَنًا وَّلَوْ کَانَ ذَا قُرْبَی وَلَا نَکْتُمُ شَہادَۃَ اللّٰہِ إِنَّا إِذًا لَمِنَ الْآثِمِینَ﴾ (المائدۃ:106) گولڈ زیہر اپنی کتاب کے صفحہ39 پر لکھتا ہے کہ ’’اس آیت میں گفتگو کا موضوع زبانی وصیت ہے کہ ’’جب گواہوں کی سچائی کے متعلق معمولی سا شک ہو جائے تو پھر وہ اللہ کی قسم اٹھا کر کہیں کہ ہم کسی ذاتی فائدے کی خاطر شہادت بیچنے والے نہیں ہیں اور خواہ کوئی ہمارا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو اور نہ خدا واسطے کی گواہی کو ہم چھپانے والے ہیں۔ اگر ہم نے ایسا کیا تو گناہ گاروں میں شمار ہوں گے۔‘‘ شاید عامر الشعبی رحمہ اللہ (المتوفی103ھ) نے سوچا کہ ’’ شَہادَۃَ اللّٰہِ ‘‘ کو کتمان کا مفعول بنانا مناسب نہیں ہے،کیونکہ اس سے یہ تاثر پیدا ہو گا کہ ایسی چیزکوچھپانا بھی ممکن ہے،جس کا گواہ خود اللہ تعالیٰ ہو۔لہٰذا انہو ں نے اس ثاثر کو ختم کر نے کے لیے اضافت کو حذف کر کے لفظ
Flag Counter