Maktaba Wahhabi

71 - 194
اوراسی کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿إِذَا السَّمَائُ انْشَقَّتْ، وَأَذِنَتْ لِرَبِّہَا وَحُقَّتْ، وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّت،﴾ (الانشقاق: 1، 2) ’’ جب آسمان پھٹ جائے گا اور اپنے رب کے حکم پہ کان لگائے گا……‘‘ أذن یہاں غور سے سننے کے معنی میں ہے۔ یعنی آسمان غور سے اپنے رب کی بات سنے گا اور اس پر لازم بھی ہے کہ وہ اس کی بات کو غور سے سنے اور اس کی فرماں برداری کرے۔ یہاں ’’أذن‘‘ کی تفسیر کان لگانے سے کرنے پہ فضالہ بن عبید کی حدیث دلیل ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جس قدر اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی تلاوت کی خوبصورت آواز کو سنتا ہے ، گانے والے اپنے گانے والوں کی آواز کو بھی نہیں سنتے۔ ‘‘[1] پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کو بہت خوبصورت انداز وترنم کے ساتھ پڑھتے تھے۔ آپ سے قرآن کی تلاوت سے خوبصورت کوئی شے نہیں سنی گئی ۔ صحیحین میں جبیربن مطعم رضی اللہ عنہ سے ہے کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مغرب کی نماز میں سورۃ طور پڑھتے ہوئے سنا، آپ سے زیادہ حسنِ آواز و قراءت والا میں نے کبھی نہیں سنا۔ اور ایک روایت میں ہے ’’ جب میں نے یہ آیت سنی: ﴿أَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَیْرِشَيْئٍأَمْ ہُمُ الْخَالِقُوْنَ﴾ (الطور: 35) ’’کیا یہ بغیر کسی (پیدا کرنے والے کے) خود بخود پیدا ہو گئے ہیں؟ یا یہ خود پیدا کرنے والے ہیں۔‘‘ مجھے یوں محسوس ہوا کہ میرا دل پھٹ رہا ہے۔[2] جبیر کا یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب وہ مشرک تھے اس کے باوجود کس قدرآپ کی
Flag Counter