Maktaba Wahhabi

46 - 194
میں جبکہ سالم اپنے آقا کے ساتھ خلافت اَبی بکر کی جنگ یمامہ میں شہید ہوئےرضی اللہ عنہم ۔ پس یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن مجید کو حاصل کرنے کے لیے متقن ، اور ماہر اہلِ قرآن کو تلاش کرنا چاہیے، نہ کہ ہر ایک سے اس کو سیکھا جائے۔ اور اس سے قبل یہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ قراءت کو قرآن پڑھانے والے سے مشافہتاً سیکھاجائے کیا آپ اس بات سے واقف نہیں کہ آپ کا فرمان ’’ خُذوُا القُرآنَ مِنْ اَرْبَعَۃٍ‘‘ کن کے لیے تھا ، اس کے مخاطب صحابہ تھے جو عرب کے بلکہ امت کے فصیح لوگ ہیں آپ نے اس قرآن کو ان کی فصاحت کے سپرد نہیں کیا بلکہ ان کو تلقی کا حکم دیا اور یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ قرآن کی قراءت کی ایک مخصوص کیفیت ہے جو توقیفی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ پس زمانہ اول کے ان عربوں کو بھی اپنی زبان کی آسانی پر قرأت کی اجازت نہ ہوئی جو خالص عرب تھے علاوہ ازیں اس حدیث میں اہلِ قرآن ، حفاظ اور متقین قراء سے محبت کی دلیل ہے اور یہ بالخصوص ہے ورنہ اہلِ فضل و علم سے محبت عموماً ایمان کی نشانی ہے لیکن چونکہ ماہر قراء کرام کے سینے اللہ تعالیٰ کی معزز کلام کو محفوظ کرنے والے ہیں اور وہ مکرم فرشتوں کی طرح اس کی قرأت وادا اور حفظ میں متقن ہوتے ہیں اس لیے یہ افراد محبت کے زیادہ مستحق اور عزت کے زیادہ لائق ہیں۔ باقی رہی یہ بات کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے قراء صحابہ میں سے ان چاروں کو کیوں خاص کیا؟ عمومی طور پر یہ سوال سامنے آتا ہے تو ہم اس کا جواب یوں دیتے ہیں: طبقہ صحابہ میں سے بہت سے قراء ان کے علاوہ بھی مشہور تھے جیسے زید بن ثابت ، ابوموسیٰ اشعری، ابوالدرداء،اور خلفا ئے اربعہ ان میں سے بہت سے لوگوں نے حضرت عثمان سے پڑھا پھر ان کو خلافت نے مشغول کردیا اور ایسے ہی علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے اور روایت حفص کی سند بھی انہی سے ملتی ہے تو آپ کا یہ فرمان ’’چار حضرات سے قرآن پڑھو‘‘ یہ بطور حصر نہیں یعنی ایسا نہیں کہ بس انہی سے پڑھو بلکہ یہ فرمان اس وقت کے ساتھ خاص ہے جب آپ نے ان کو دوسروں سے مقدم فرمایا ورنہ اس میں ان جیسے دوسرے صحابہ یا ان سے زیادہ
Flag Counter