پس یہ روایت اس کے جواز کی دلیل ہے اور اس کا فائدہ آپ کو تب نظر آئیگا جب آپ دور دراز کے علاقوں یا دیہاتوں میں بسنے والے افراد کو دیکھیں گے جنہیں قرآن مجید کا اتنا حصہ بھی یاد نہیں ہوتا جو نماز کے لیے کافی ہو۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، میں نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے فجر کی نماز پڑھی انھوں نے سورہ بقرہ شروع کی اور دورکعتوں میں مکمل کردی۔ عمر رضی اللہ عنہ ، کھڑے ہوئے اور فرمایا، اللہ تعالیٰ آپ کی مغفرت فرمائے یوں لگتا تھا کہ آپ کے سلام پھرنے سے پہلے پہلے سورج طلوع ہونے والا ہے، تو انہوں نے فرمایا: اگر اس حال میں سورج طلوع ہو جاتا تو ہمیں غافلوں میں نہ پاتا۔ [1] عبداللہ بن عامر بن ربیعہ[2] فرماتے ہیں ، میں نے سورہ یوسف اور سورہ حج حضرت عمر سے فجر کی نماز میں سن سن کر یاد کی ہے۔ اور فرماتے ہیں: وہ ان دونوں سورتوں کو آہستہ آہستہ پڑھتے تھے۔ [3] عبداللہ بن شداد فرماتے ہیں:میں نے عمر رضی اللہ عنہ کے رونے کی آواز آخری صفوں میں سنی ، آپ سورہ یوسف پڑھ رہے تھے جب یہاں پہنچے تو رو دیے ﴿ إِنَماَ اَشْکُوْابَثِّیْ وَحُزْنِی إِلَی اللّٰہِ﴾ [4] ابو بردہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے فجر کی نماز میں ﴿اِنّافَتَحْنَا لَکَ فَتْحاً مُّبِیْنَا﴾[5] کی تلاوت کی۔ |