یہی مفہوم ہے نہ کہ وہ جو بعض تو ہم پرستوں نے سمجھ لیا کہ صحابہ کرامرضی اللہ عنہم کو قرآنی کلمات میں تبدیلی کی اجازت تھی۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے: ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت کے متعلق پوچھا گیا تو وہ اس کی توضیح میں حرف بہ حرف بیان کرنے لگیں اور فرمایا آپ قراءت رک رک کر فرماتے تھے۔ آپ پڑھتے ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ﴾ پھر ٹھہر جاتے، ﴿اَلرَّحْمَانِ الرَّحِیْم﴾ پھر وقف کرتے، ﴿مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ﴾ اس کو ترمذی اور ابو داؤد نے روایت کیا ہے ۔ ابوداؤد کے الفاظ میں ہے: وہ فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ، اَلرَّحْمَانِ الرَّحِیْم، مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ،﴾ ہر آیت پہ ٹھہر ٹھہر کے تھی۔[1] پس یہ حدیث مبارکہ اس بات پہ دلالت کرتی ہے کہ آیات کے اختتام پہ وقف کرنا چاہیے تو یقینا اس سے عدالآی اور فواصل کی معرفت کے اہتمام کا فائدہ بھی نظر آتا ہے جب کہ آپ سے ثابت ہے کہ آپ ان (صحابہ ) کو یہ بھی ایسے ہی سکھاتے تھے جیسے ان کو قرآن سکھاتے تھے ۔[2] تاہم جب آیت کریمہ کا مابعد سے بہت گہرا تعلق ہو تو قاری کو اختیار ہے کہ وہ آیت کے اختتام پہ وقف کرے اور پھر اس کو ما بعد سے ملادے اس کی مثال ﴿لَعَلَّکُمْ تَتَفَکَّرُوْنَ ۔فِی الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ ...﴾ (البقرۃ: 219، 220) پس جب (تتفکرون) پہ وقف کرے تو ما بعد سے ابتداکی بجائے وصل کرے کیونکہ |