Maktaba Wahhabi

114 - 194
اور لحن خفی کی اس قسم سے صرف ادائیگی کی شروط اور احکام تجوید کو مد نظر رکھ کر ہی بچاجا سکتا ہے اور یہ وہی اختیار کر سکتا ہے جس نے قرآن مجید کوماہرین و متقنین سے بالمشافہہ حاصل کیا ہو۔ باقی رہی بات اس لحن کے حکم کی تو اس کا حکم تعلیم تجوید کے حکم کے مطابق ہے اور یہ بات ہم واضح کر چکے ہیں کہ وہ واجب ہے۔ سب سے عمدہ بات جو اس سلسلہ میں کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ علم تجوید فرض کفایہ ہے جب کہ اس پر عمل کرنا فرض عین ہے اگر چہ قراءت قرآن سنت ہے ۔[1] تاہم کچھ قرات وجوب کا حکم رکھتی ہے جیسے نماز کی صحت کے لیے قراءت کی مقدار تو پھر اتنی مقدار کو تجوید کے ساتھ پڑھنا فرض عین ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’’جو شخص نماز میں سورۃ فاتحہ نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی۔‘‘[2] لہٰذا جو شخص کسی بھی قسم کی لحن جلی کرے گا تو اس کی قراءت میں اسی قسم کاخلل واقع ہو گا اور جو کوئی کسی قسم کی لحن خفی کر ے گا اس کی قرا ت میں ویسے ہی خلل پیدا ہو گا۔ ابن جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’من لم یجودالقرآن آثم‘‘ یعنی جس کی قراءت درست نہ ہو گی تو وہ قرا ت میں غلطی کی بنا پر گناہ گار ہو گا، بالخصوص لحن جلی میں زیادہ گناہ میں پڑنے کا اندیشہ ہے تو صحیح بات یہ ہے کہ جو شخص تجویدکی کوشش کے بغیر اس میں غلطی کرے گا وہ گناہ گار ہو گاکیونکہ وہ باوجود قدرت کے ایسا کرتا ہے جب کہ کو شش کرنے والا اگر زبان کی درستگی سے عاجز آجائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے تاہم ایسے شخص کو امامت نہیں کروانی چاہیے، خاص طور پر جب ان میں تجوید سے پڑھنے والا موجود ہو۔ لہٰذا یہاں دو مسئلے قابلِ ذکر ہیں: (1) جو شخص نماز میں لحن کرتا ہے اس کی نماز کا کیا حکم ہے ؟ (2) ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟
Flag Counter