Maktaba Wahhabi

110 - 194
ہونے کے باوجود ۔ کیونکہ وہ فصیح ترین عرب تھے ۔اس حدیث مبارکہ میں اس کی مذمت ہے اور یہ ضلال (گمراہی ) کی قسموں میں سے ہے جس کے کرنے والے کی اصلاح کی ضرورت ہے ۔ کبھی کبھار یہ غلطی کلمات میں تبدیلی کا سبب بن جاتی ہے تو اس وقت وہ بہت زیادہ مذمت بلکہ قدرت ہونے کے باوجود نہ بچنے کی شکل میں گناہ کی صورت اختیار کر لیتی ہے ۔ ابن جریر نے ابو العالیہ [1] سے روایت کیا ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا مجھے قسم ہے! اس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھا جائے اور اس کی تلاوت ایسے کی جائے جیسے تلاوت کرنے کا حق ہے اور اس کے کلمات کو تبدیل نہ کیا جائے۔[2] قراءت میں لحن ( غلطی )یا تو اعراب میں ہو گی یا پھر نص قرآنی میں تبدیلی کی غلطی ہوتی ہے یعنی اس کو دوسرے کلمہ یا حرف کو دوسرے حرف سے تبدیل کر دیاجاتا ہے تو اس کو تحریف کہتے ہیں ۔ چاہے معنی صحیح ہی کیوں نہ ہو کیونکہ پڑھنے والے نے جس حرف کو ادا کیا ہے وہ قرآن مجید میں ہے ہی نہیں ،یا پھر غلطی لہجہ میں ہوتی ہے اور یہی اکثر وبیشتر واقع ہوتی ہے ۔ اعراب میں غلطی کی مثال محمد بن قاسم انباری کی روایت[3] ہے کہ زیادنے ابو اسود کی طرف کسی کو بھیجا اور کہا:اے ابو اسود! عربوں کی زبانوں پر اب یہ حمیری زبان بہت عام ہو رہی ہے
Flag Counter