Maktaba Wahhabi

672 - 677
۲۔اس موجودہ حادثہ بہتان میں ان لوگوں کے لیے صریح پیغام ہے جو مذہب تشیع سے ناطہ جوڑنا چاہتے ہیں کہ وہ جن مصلحتوں کا شکار ہیں ، ان مصلحتوں کو ان کی بنیاد سے اکھیڑ دیا گیا ہے اور اب ان کے لیے واضح ہو گیا ہے کہ وہ حق اور باطل کو اکٹھا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان کی مثال بالکل اس شخص کی ہے جو پانی میں جلتا ہوا انگارہ تلاش کرے یا جو سراب سے اپنی پیاس بجھانا چاہے۔ ۳۔اس مصیبت کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ بیشتر علماء و دعاۃ اہل سنت، رافضیت کے خطرات سے امت کو آگاہ کرنے میں لگ گئے اور اس کے بد اثرات کا پول کھولنے میں اہم کردار ادا کرنے میں مصروف ہو گئے اور جدید وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے الیکٹرانک میڈیا کے متعدد چینلز اور انٹرنیٹ پر متعدد مخصوص ویب سائٹس کے ذریعے سے اہل روافض کی پھیلائی ہوئی ضلالتوں اور ان کی طرف سے اسلام کے چہرے کو مسخ کرنے کی کاوشوں کا خوب قلع قمع کیا گیا ہے، جو واقعی قابل تعریف ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت تھی کہ روافض کے خطرات سے آگاہی کے لیے عوام کا شعور بیدار کیا جائے تاکہ وہ گھروں ، چوک چوراہوں ، بازاروں ، فیکٹریوں ، اجتماعات اور محافل میں رافضیوں کے پھیلائے ہوئے گمراہ عقائد و اعمال کی اصلاح کریں اور یہ عمل الحمد للہ خیر کثیر کا پیش خیمہ ہے۔ جس کے فوائد بہت زیادہ ہیں ۔ دعاۃ و خطباء اور واعظین کا کام بہت آسان ہو گیا ہے اور بد اعمالوں کی تدبیروں سے صرف بداعمال ہی ہلاک ہوتے ہیں ۔ و الحمد للّٰہ رب العالمین!! ۴۔اس موجودہ بہتان تراشی کا ایک مثبت اثر یہ بھی ہے کہ عام لوگ جو رافضیوں کے مکر و فریب کا شکار ہو گئے تھے ان کی آنکھوں سے پردہ ہٹ گیا۔ ہم نے سنا ہے کہ رافضی بکثرت اہل سنت کا مذہب اختیار کر رہے ہیں اور اپنے سابقہ طرز عمل پر ندامت کا اظہار کر رہے ہیں ۔ روافض خلفائے راشدین اور امہات المومنین سمیت اکثر صحابہ کے بارے میں جس بداعتقادی کا شکار ہیں اور وہ ان نفوس قدسیہ کے ساتھ جس قدر کینہ اور بغض رکھتے ہیں ان سے توبہ تائب ہو رہے ہیں اس خیر کے لیے ہم اللہ تعالیٰ کا جتنا شکر ادا کریں کم ہے۔[1] ۵۔اہل سنت نے میڈیا کے جدید ذرائع کو صحابہ اور امہات المومنین کے فضائل و مناقب بیان کرنے کے لیے خوب استعمال کیا ہے، جبکہ روافض کا خصوصی نشانہ ہماری پیاری امی جان سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا تھیں ۔ اہل سنت کے علماء و خطباء اور مصنّفین نے ان کا دفاع سنہری حروف کے ساتھ کیا اور یہی
Flag Counter