Maktaba Wahhabi

639 - 677
ہو جاتی ہیں اور بکری آ کر وہ آٹا کھا جاتی ہے۔ دراصل عربی زبان میں اسے ’’مدح بما یشبہ الذم‘‘ کہا جاتا ہے۔ یعنی کسی کی ایسی مدح کی جائے جو لفظی اعتبار سے مذمت معلوم ہو۔ جیسا کہ جاہلیت کے شاعر نابغہ ذیبانی کا ایک شعر ہے: وَ لَا عَیْبَ فِیْہِمْ غَیْرَ اَنَّ سُیُوْفَہُمْ بِہِنَّ فُلُوْلٌ مِنْ قِرَاعِ الْکَتَائِبِ ’’میرے ممدوح کے لشکریوں میں اس کے علاوہ کوئی عیب نہیں کہ ان کی تلواریں دشمن کو کاٹ کاٹ کر کند ہو چکی ہیں ۔‘‘[1] ۴۔مدینہ منورہ میں وہ اپنی پالکی میں پہنچتی ہیں ، ان کے گمان میں قطعاً یہ بات نہ تھی کہ کچھ لوگ اس بے گناہ اور پاک دامن لڑکی کے بارے میں کس طرح کی افواہیں پھیلاتے ہوں گے۔ حتیٰ کہ کچھ عرصے کے بعد انھیں کچھ باتوں کا علم ہوا تو خود وہ حکایتاً کہتی ہیں ’’میں اپنے والدین کے پاس آئی اور اپنی امی سے کہا: اے امی جان! لوگ کیسی باتیں کر رہے ہیں ؟ انھوں نے کہا: اے بیٹی! تم اسے اپنے اوپر سوار نہ ہونے دو اور اسے ہلکا لو۔ اللہ کی قسم! جب بھی کوئی عورت حسن کا شاہکار ہوتی ہے اور اس کا خاوند بھی اس کے ساتھ بے انتہا محبت کرتا ہوجب کہ اس کی سوکنیں بھی ہوں ، تو اس کے خلاف کثرت سے باتیں ہوتی رہتی ہیں ۔[2] بقول سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا : ’’میں نے اپنی والدہ کی نصیحت آموز باتیں سن کر کہا: سبحان اللہ! کیا واقعی لوگ ایسی باتیں کر رہے ہیں ؟‘‘ اس پاک دامن، صاف دل بھولی بھالی دوشیزہ کی سماعت پر یہ الفاظ بھی نہایت بوجھل بن کر گرے کہ لوگ ایسی گندی باتیں کر رہے ہیں ۔ آیات کریمہ میں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس صفت کا واشگاف الفاظ میں یوں اعلان کیا جاتا ہے: ﴿ إِنَّ الَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ لُعِنُوا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ﴾ (النور: ۲۳)
Flag Counter