Maktaba Wahhabi

634 - 677
اکساتے اور اس کے معاون دیگر اسباب بھی اکٹھا کرتے اورآپ سے اپنی بات منوانے کے لیے علی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصی منت سماجت کرتے۔ لیکن علی رضی اللہ عنہ نے اس طرح کی پراگندگی کو ترک کر کے دوسرا مشورہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا۔ جب خادمہ آئی تو اس نے عائشہ رضی اللہ عنہا کی نیکی کی گواہی دی اور ہماری امی جان جس مدح و ثنا کی مستحق اور اہل تھیں ، خادمہ نے وہی مدح و ثنا بیان کر ڈالی۔ اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سارا تکدر ختم ہو گیا اور علی رضی اللہ عنہ کا مشورہ نہایت خوشگوار ثابت ہوا۔ گویا سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے جو مشورہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا وہ ہماری امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا کی عیب جوئی نہ تھا اور علی رضی اللہ عنہ اس الزام سے بری الذمہ ہیں ، لہٰذا علی رضی اللہ عنہ کے قول کو رافضی اپنی افتراء بازیوں کی دلیل نہیں بنا سکتے۔ اب ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا موقف نکتہ وار بیان کریں گے: ۱۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مہینہ تک وحی رک گئی۔ ام المومنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی شان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کوئی وحی نہ آئی، ان لمحات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا کی علیحدگی کے متعلق مشورہ طلب کیا۔ ۲۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خادمہ خاص سیّدہ بریرہ رضی اللہ عنہا سے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں پوچھا تو اس نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر کسی شک و شبہ کے متعلق کچھ نہ کہا۔ البتہ اتنا کہا کہ وہ کم عمری کی وجہ سے اہل خانہ کے گوندھے ہوئے آٹے سے غافل ہو جاتی ہیں ۔[1]
Flag Counter