Maktaba Wahhabi

633 - 677
’’اے رباح تو میرے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت حاصل کر۔ کیونکہ میرا گمان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوچ رہے ہیں کہ شاید میں حفصہ رضی اللہ عنہا کے معاملے پر بات کرنے آیا ہوں ۔ اللہ کی قسم! اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اس کی گردن کاٹنے کا حکم دیں تو میں ضرور اس کی گردن کاٹ دوں گا۔‘‘[1] سیّدہ حفصہ سیّدنا عمر رضی ا للہ عنہما کی وہی بیٹی ہیں جن کی محبت عمر رضی اللہ عنہ کی فطرت تھی۔ لیکن وہی عمر رضی اللہ عنہ قسم اٹھا کر کہتے ہیں کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھے میری پیاری بیٹی کو قتل کرنے کا حکم دیں تو میں اسے ضرور قتل کر ڈالوں ۔ جی ہاں ! اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اہل فضل کا مقام و مرتبہ اچھی طرح پہچانتے تھے، لیکن ان میں سے جب کوئی دیکھتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ادنیٰ سا حزن و ملال پہنچا ہے تو ان تمام کے صبر کے پیمانے چھلک پڑتے۔ وہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش کرنے کے لیے دوڑ پڑتے اور چاہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غم پہنچانے کا سبب کوئی بندہ بھی ہو انھیں کسی قسم کی پروا یا خوف نہ ہوتا۔ اللہ تعالیٰ ان سب سے راضی ہو جائے۔ یہی موقف علی رضی اللہ عنہ نے اپنایا جو موقف عمر رضی اللہ عنہ کا تھا، جبکہ عمر رضی اللہ عنہ کا اپنی بیٹی سے نفرت کرنے کا کوئی فرد تصور ہی نہیں کر سکتا۔ اسی طرح سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے متعلق یہ سوچنا بھی محال ہے کہ وہ ام المؤمنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے نفرت کرتے تھے جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خلوص دل سے مشورہ دیا بلکہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور آپ کی عظیم قدر و منزلت سب سے مقدم اور سب سے بڑھ کر تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ جو بھی جس قدر بھی مقام و مرتبہ کا مالک تھا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں کچھ بھی نہ تھا۔ دوسرا فائدہ:.... سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خادمہ سے پوچھ لیں وہ آپ کو سچ بتائے گی، اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے فضل کا یقین تھا۔ تو علی رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس زہر آلود حزن سے بچانے کے لیے اس خادمہ کے بیانات لینے کا مشورہ دیا جو اکثر اوقات سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہمراہ ہوتی تھی، آپ کی خادمہ خاص تھی اور وہ ان کے پوشیدہ رازوں سے واقف تھی اور امور خانہ داری میں ان کا ہاتھ بٹاتی۔ اگر علی رضی اللہ عنہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بدگمان ہوتے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علیحدہ کرنے کا مشورہ دے کر خاموش رہتے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی وسعت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے محدود تو نہیں کیا بلکہ علی رضی اللہ عنہ اپنے مشورے کو بار بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دہراتے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے خلاف خوب
Flag Counter