Maktaba Wahhabi

616 - 677
جب انھوں نے دوپہر کا پڑاؤ کیا۔ سو جس نے ہلاک ہونا تھا وہ ہلاک ہو گیا اور بہتان تراش عبداللہ بن ابی بن سلول تھا۔ ہم مدینہ آ گئے۔ جب میں گھر پہنچی تو مجھے ایک مہینے تک سخت بخار ہو گیا اور لوگ بہتان تراشوں کی افواہوں کے متعلق رائے زنی کرتے۔ مجھے اس کے بارے میں کچھ معلوم نہ تھا۔ البتہ مجھے جو چیز کھلتی تھی وہ یہ کہ میں اپنی بیماری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ لطف و کرم نہ دیکھ پاتی جو میں اس سے پہلے اپنی بیماری میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پاتی۔ اب تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سلام کرتے پھر فرماتے: ’’تم کیسی ہو؟‘‘[1] پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس چلے جاتے۔ اس بات سے مجھے شبہ ہوتا۔ لیکن مجھے شرارت کے متعلق کچھ معلوم نہ تھا۔ ایک دن میں قدرے افاقے کے بعد ام مسطح کے ساتھ مناصع[2] جو ہمارے لیے قضائے حاجت کا میدان تھا، کی طرف گئی، ہم صرف راتوں رات ہی گھر سے باہر نکلتی تھیں اور یہ واقعہ ہمارے گھروں کے قریب بیت الخلاء بنانے سے پہلے کا ہے اور ہم پہلے عربوں کی طرح قضائے حاجت کے لیے باہر جاتی تھیں ۔ ہمیں اپنے گھروں کے پاس بیت الخلاء بنانے سے گھن آتی تھی۔ تو میں ام مسطح کے ساتھ باہر نکلی جو ابو رہم بن عبد مناف کی بیٹی تھی اور اس کی والدہ ابوبکر صدیق کی خالہ تھیں جو صخر بن عامر کی بیٹی تھیں اور ان کے بیٹے کا نام مسطح بن اثاثہ تھا۔ میں اور ام مسطح اپنی حاجت سے فارغ ہو کر میرے گھر کی جانب آ رہی تھیں تو ام مسطح کو اس کی چادر سے اڑنچھو لگ گیا۔ اس نے بے ساختہ کہا: مسطح ہلاک ہو جائے۔ میں نے اسے کہا تو نے نامناسب بات کی، کیا تم اس نوجوان کو گالی دیتی ہو جو بدر میں شامل تھا؟ اس نے کہا: اے بھولی بھالی لڑکی! [3] کیا تم نے نہیں سنا جو اس نے کہا: عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں میں نے کہا: اور اس نے کیا کہا؟ تب اس نے مجھے بہتان تراشوں کی بات بتائی۔ نتیجتاً میری بیماری کے ساتھ ایک اور بیماری کا اضافہ ہو گیا۔ جب میں واپس اپنے گھر پہنچی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے اور سلام کیا۔ پھر حسب معمول فرمایا تو کیسی ہے؟ میں نے کہا: کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اپنے والدین کے پاس جانے کی اجازت دیں گے۔
Flag Counter