Maktaba Wahhabi

598 - 677
سخت تھی چونکہ اس کے ذریعے جانوں کا ضیاع ہوتا ہے تو اس کے نتیجے کو ظاہر کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فسق سے بھی بڑا لفظ بولا اور وہ کفر ہے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد حقیقی کفر نہیں جس کے بعد ایک مسلمان امت مسلمہ سے خارج ہو جاتا ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احتیاط میں مبالغے کے لیے کفر کا استعمال کیا ہے اور مقرر قواعد پر اعتماد کرتے ہوئے ہم کہتے ہیں کہ اس طرح کے افعال ملت سے خارج ہونے کا سبب نہیں بنتے جیسے حدیث شفاعت ہے اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: ﴿ إِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ ﴾ (النساء: ۴۸) ’’بے شک اللہ اس بات کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک بنایا جائے اور وہ بخش دے گا جو اس کے علاوہ ہے، جسے چاہے گا۔‘‘ یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فعل پر کفر کا اطلاق اس لیے فرمایا کہ یہ اس کے مشابہ ہے کیونکہ مومن کے ساتھ صرف کافر ہی لڑتا ہے۔‘‘[1] اس مقام پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے حدیث کی تاویل کی کچھ اور وجوہ بھی ذکر کی ہیں اور یہ حکم اس لیے ہے جو عمداً بلکہ بغیر کسی محرک کے ظلم و زیادتی کرے لیکن جو اجتہاد کرے اور وہ اجتہاد کی اہلیت بھی رکھتا ہو، پھر اس سے اجتہاد میں غلطی ہو جائے تو وہ اصولی طور پر اس وعید میں داخل ہی نہیں بلکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے مفہوم میں داخل ہے: ((اذا اجتہد الحاکم فاصاب فلہ اجران، و اذا اجتہد فاخطا فلہ اجر)) ’’جب حاکم اجتہاد کرے اور اس کا اجتہاد صحیح ہو تو اسے دو اجر ملیں گے اورجب وہ اجتہاد میں غلطی کرے تو اسے ایک اجر ملے گا۔‘‘[2] پھر یہ کہ علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ جن خوارج نے قتال کیا علی رضی اللہ عنہ نے ان کو کافر نہیں کہا۔ بلکہ خوارج کے اجماع کے مطابق وہ کافر ہے اور یہ وہی لوگ ہیں جن کی پہچان نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرما کر کروائی ہے کہ وہ
Flag Counter