Maktaba Wahhabi

597 - 677
مطابق توبہ کرنے والے کے لیے مغفرت کا وعدہ کیا گیا ہے اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا ﴾ (الحجرات: ۹) ’’اور اگر ایمان والوں کے دوگروہ آپس میں لڑ پڑیں تو دونوں کے درمیان صلح کرا دو۔‘‘ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی باہمی لڑائی کے باوجود انھیں مومن کہا ہے، پھر اس آیت کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ ﴾ (الحجرات: ۱۰) ’’مومن توبھائی ہی ہیں ، پس اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کراؤ۔‘‘ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان سے اخوت کی نفی نہیں کی اور خوارج اور ان کی طرح جو یہ تاویل باطل کرتے ہیں ان کے بارے میں اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ جہنمی کتے ہیں اور قرآن ان کے گلوں سے آگے نہیں جاتا۔[1] سیّدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایسی متعدد صحیح احادیث موجود ہیں اور جس حدیث سے وہ استدلال کرتے ہیں وہ اپنے موضوع پر تنہا نہیں بلکہ اس طرح کے فرامین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بکثرت موجود ہیں ۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوْقٌ وَ قِتَالُہٗ کُفْرٌ۔)) ’’مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے قتال کرنا کفر ہے۔‘‘[2] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اِثْنَتَانِ فِی النَّاسِ ہُمَا بِہِمْ کُفْرٌ ، اَلطَّعْنُ فِی النَّسَبِ وَالنَّیَاحَۃِ۔))[3] ’’لوگوں میں دو عادات ایسی ہیں جن کی وجہ سے وہ کافر ہو جاتے ہیں ؛ حسب و نسب میں طعن و تشنیع اور نوحہ (بین) کرنا۔‘‘ ان احادیث کی صحیح تاویل حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے یوں کی ہے، وہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : ’’مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اوراس سے لڑنا کفر ہے۔‘‘ اس حدیث میں خوارج کی کوئی دلیل نہیں ، کیونکہ اس کے ظاہری الفاظ کے حقیقی معانی مراد نہیں ۔ لیکن جب لڑائی گالی سے زیادہ
Flag Counter