Maktaba Wahhabi

547 - 677
کاشتکاروں کے پاس ہے جو اونٹوں کی دموں کے پاس ہوتے ہیں ۔ جہاں سے شیطان کے دونوں سینگ طلوع ہوتے ہیں ۔ جو ربیعہ اور مضر کی سرزمین ہے۔‘‘ ان احادیث میں کی گئی وضاحت سے بخوبی پتا چل رہا ہے کہ بیان نبوی کے مطابق سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہرگز مراد نہیں ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں اس وقت اہل مشرق کفر پر تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی کہ فتنہ اس جانب سے ہو گا جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی تھی ویسے ہی ہوا اور اسلام میں سب سے پہلا فتنہ مشرق کی جانب سے اٹھا۔ جو امت مسلمہ میں تفرقہ کا سبب بنا اور یہی چیز شیطان کی پسندیدہ ہے اور وہ اسی سے خوش ہوتا ہے۔ اسی طرح بدعتی فرقے بھی اسی جانب سے نمودار ہوئے۔ علامہ خطابی رحمہ اللہ [1] لکھتے ہیں : ’’نجد مشرق کی جانب ہے اور جو مدینہ میں رہائش پذیر ہو تو عراق کا صحراء اور گرد و پیش اس کے لیے نجد کہلائے گا اور وہ اہل مدینہ کے مشرق کی جانب ہے۔ نجد لغت میں زمین سے بلند جگہ کو کہتے ہیں اور یہ ’’الغور‘‘ بمعنی غار کے برعکس ہے، کیونکہ یہ زمین کی پستی اور زیریں حصے کو کہتے ہیں اور سارے کا سارا تہامہ الغور ہے اور مکہ تہامہ میں ہے.... انتہٰی‘‘[2] نیز ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کفر کا سر مشرق کی طرف ہے۔[3] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : اس فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں مجوسیوں کے کفر کی شدت کی طرف اشارہ ہے۔ کیونکہ فارس اور ان کے متبعین عرب مدینہ کی نسبت مشرق کی جانب تھے اور وہ انتہا درجے کے سنگ دل، متکبر اور ظالم تھے۔ حتیٰ کہ ان کے بادشاہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خط مبارک پھاڑ ڈالا۔[4] دوم:.... رافضیوں کا یہ کہنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ کے گھر کی طرف اشارہ کیا یہ سراسر کذب، تہمت اور بہتان ہے، حدیث کی مختلف روایات میں سے کسی میں یہ الفاظ نہیں ہیں بلکہ حدیث کے تو یہ الفاظ ہیں :
Flag Counter