Maktaba Wahhabi

542 - 677
ہی جس کے روافض بھی دعوے دار نہیں ، کیونکہ یہی آیت ان کے نزدیک مسئلہ کی اساس اور بنیاد ہے گویا شیعہ کے باطل دعووں پر یہ ردّ قوی و صریح ہے۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے سیّدنا علی، فاطمہ، حسن اور حسین رضی اللہ عنہم کو اہل البیت میں اضافی طور پر شامل نہ کیا جاتا تو آیت کریمہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں تک ہی محدود و مقصور ہوتی۔ جس طرح کہ ابراہیم علیہ السلام کی بیوی سارہ رحمہ اللہ کے ساتھ اور موسیٰ علیہ السلام کی بیوی کے ساتھ ہوا، چنانچہ قرآن کریم وضاحت کر رہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیویاں ہی آپ کی اہل البیت ہیں ، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ اضافی طور پر علی، فاطمہ، حسن اور حسین رضی اللہ عنہم کوبھی شامل کر لیا اور یہ لغت عربی کے اسلوب اور ثقافت کے ساتھ میلان رکھتا ہے۔ نیز جو لوگوں کے ہاں مروج ہے اور رافضیوں کے باطل دعووں کے برعکس ہے۔ سوم:.... سیّدنا ابراہیم علیہ السلام اور سیّدنا و نبیّنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں کے تذکرے میں مونث سے مذکر کے صیغے میں تبدیلی کیوں ہوئی؟ جواب: کیونکہ گھر سب سے پہلے نبی علیہ السلام کا گھر ہے۔ جب اس میں کوئی غلطی واقع ہو تو سب سے پہلے گھر کے مالک کا نام لیا جاتا ہے۔ اس سے پہلے کہ گھر کے دوسرے افراد کا نام لیا جائے، کیونکہ انجام کار طعن و تشنیع کا اصل نشانہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شرافت و نبوت کو بنایا جائے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والے (اہل البیت) ہیں اور گھر والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر قسم کی نجاست سے پاک ہوں اور طہارت و نفاست ان کی پہچان ہو۔ گویا آیات کریمہ میں نبی علیہ السلام کو اس کی بیویوں سمیت مخاطب کیا گیا ہے اور دلالت حدیث کے ذریعے علی، فاطمہ، حسن اور حسین رضی اللہ عنہم ان میں اضافی طور پر شامل ہیں اور یہ اسلوب لغت عربی کا اسلوب ہے کہ جس میں مذکر کو مخاطب کیا جاتا ہے، لیکن اس سے مراد مذکر اور مونث دونوں ہوتے ہیں اور اسے غالب اسلوب یا تغلیبی اسلوب کہتے ہیں اور یہ قرآن میں بکثرت استعمال ہوا ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا﴾ (البقرۃ: ۱۰۴) ’’اے ایمان والو!‘‘ تو اس آیت میں مومن مرد اور مومن عورتیں سب شامل ہیں ۔[1]
Flag Counter