Maktaba Wahhabi

541 - 677
کا غلبہ ہوتا ہے۔ جبکہ آیت عام ہے تمام اہل البیت مرد و زن کو خطاب ہے۔ اس لیے مناسب یہی تھا کہ مذکر کا صیغہ لایا جاتا۔[1] قرآن کریم میں اس طرح کی مثالیں سیّدنا ابراہیم علیہ السلام کے قصے میں بار بار آئی ہیں جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے حکایتاً بیان کیا کہ انھوں نے ابراہیم علیہ السلام کی بیوی سارہ رحمہ اللہ کو اسحق اور اس کے بعد یعقوب علیہ السلام کی بشارت دی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَامْرَأَتُهُ قَائِمَةٌ فَضَحِكَتْ فَبَشَّرْنَاهَا بِإِسْحَاقَ وَمِنْ وَرَاءِ إِسْحَاقَ يَعْقُوبَ () قَالَتْ يَاوَيْلَتَى أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ وَهَذَا بَعْلِي شَيْخًا إِنَّ هَذَا لَشَيْءٌ عَجِيبٌ () قَالُوا أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللّٰهِ رَحْمَتُ اللّٰهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ ﴾ (ہود: ۷۱۔۷۳) ’’اور اس کی بیوی کھڑی تھی، سو ہنس پڑی تو ہم نے اسے اسحاق کی اور اسحاق کے بعد یعقوب کی خوش خبری دی۔ اس نے کہا، ہائے میری بربادی! کیا میں جنوں گی، جب کہ میں بوڑھی ہوں اور یہ میرا خاوند ہے بوڑھا، یقیناً یہ تو ایک عجیب چیز ہے ۔ انھوں نے کہا، کیا تو اللہ کے حکم سے تعجب کرتی ہے؟ اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں تم پر اے گھر والو! بے شک وہ بے حد تعریف کیا گیا، بڑی شان والا ہے۔‘‘ چنانچہ ابتدائے آیات میں ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ کو مونث کے صیغوں سے خطاب کیا گیا ہے، مثلاً ﴿ فَبَشَّرْنَاهَا ﴾ و ﴿ قَالَتْ يَاوَيْلَتَى ﴾﴿ أَتَعْجَبِينَ ﴾پھر آیات کا اسلوب خطاب مونث سے مذکر کی طرف تبدیل ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿ رَحْمَتُ اللّٰهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ ﴾ اسی طرح صیغہ مونث نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے لیے استعمال کیا گیا اور پھر مونث سے مذکر میں تبدیل کر دیا گیا۔ یہ وہی صورت ہے جو سیّدنا ابراہیم علیہ السلام کی بیوی کے ساتھ پیش آئی۔ دوم:.... اگر ہم کہیں کہ آیت تطہیر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے لیے آنے والا مونث کا صیغہ مذکر میں تبدیل ہو گیا۔ اس لیے رافضیوں کے کہنے کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں اہل البیت میں شامل نہیں ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سیّدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا بھی نص قرآنی میں داخل نہیں اور یہ ایسی بات
Flag Counter