Maktaba Wahhabi

539 - 677
وجہ سے وہاں آنے سے روک دیا۔[1] شیخ محمد طاہر بن عاشور تونسی رحمہ اللہ نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تفسیر کرتے ہوئے کہا: ﴿ إِنَّمَا يُرِيدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا﴾ (الأحزاب: ۳۳) ’’اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے گندگی دور کر دے اے گھر والو! اور تمھیں پاک کر دے ، خوب پاک کرنا۔ ‘‘[2] اہل تشیع حدیث کساء کو غلط طور پر پیش کرتے ہیں اور انھوں نے اہل بیت کا وصف غصب کر لیا اور اسے صرف فاطمہ، ان کے خاوند اور ان دونوں کے دونوں بیٹوں رضی اللہ عنہم تک محدود کر لیا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں اہل البیت میں شامل نہیں ۔ یہ موقف قرآن کے خلاف ہے، کیونکہ اس آیت کو نعوذ باللہ من ذلک بے معنی بنا دیا گیا ہے جو خصوصی طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کو خطاب کر رہی ہے اور حدیث کساء (چادر والی حدیث) میں کوئی ایسا لفظ نہیں ہے جس سے یہ مفہوم نکلے کہ اہل بیت کی اصطلاح صرف چادر والوں کے لیے خاص ہے۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: ((ہٰؤُلَائِ اَہْلُ بَیْتِیْ)) میں ایسا کوئی لفظ نہیں جو قصر اور تحدید کا فائدہ دے کہ صرف یہی میرے گھر والے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بالکل اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی لوط علیہ السلام کی زبان سے جو الفاظ کہلوائے انہی کی طرح ہیں : ﴿ قَالَ إِنَّ هَؤُلَاءِ ضَيْفِي فَلَا تَفْضَحُونِ﴾ (الحجر: ۶۸) ’’اس نے کہا یہ لوگ تو میرے مہمان ہیں ، سو مجھے ذلیل نہ کرو۔‘‘ اس آیت کا قطعاً یہ معنی نہیں کہ ان کے علاوہ میرا کوئی مہمان نہیں وگرنہ روافض کے کیے جانے والے
Flag Counter