Maktaba Wahhabi

527 - 677
’’ہمارے وارث نہیں بنائے جاتے۔ ہم جو چھوڑیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔‘‘ جہاں تک سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو میراث سے محروم کرنے کا معاملہ ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَا نُوْرَثُ، مَا تَرَکْنَا صَدَقَۃٌ)) [1] ’’ہمارے وارث نہیں بنائے جاتے، ہم جو چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔‘‘ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وارث نہ بنایا جانا قطعی سنت اور اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے اور یہ دونوں قطعی دلیلیں ہیں ۔‘‘[2] سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس جانا اور فدک سے اپنی میراث طلب کرنا اور سابقہ حدیث کی روشنی میں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا جواب دینا، جس کی وجہ سے فاطمہ رضی اللہ عنہا ناراض ہو کر چلی گئیں ۔ اس کا سبب یہ بنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کا مفہوم سمجھنے میں ان کو غلطی لگی جیسا کہ ابن حجر رحمہ اللہ نے وضاحت کی۔[3] لیکن یہ اختلاف اس و قت ختم ہو گیا جب ابوبکر رضی اللہ عنہ سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر چلے گئے اور ان کی منت سماجت کر کے انھیں منایا۔ جیسا کہ امام بیہقی نے اپنی سند کے ذریعے شعبی سے روایت کیا ہے کہ جب فاطمہ رضی اللہ عنہا بیمار ہوئیں تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے پاس جانے کے لیے اجازت طلب کی۔ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: اے فاطمہ! یہ ابوبکر ہیں ۔ آپ کے پاس آنے کی اجازت طلب کر رہے ہیں ؟ انھوں نے کہا: انھیں اجازت دے دیں ۔ سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ان کے پاس جا کر ان کی منت سماجت کرنے لگے۔ انھوں نے کہا: اللہ کی قسم! میں نے اپنا گھر، مال اور اہل و عیال ترک کر دیا ہے۔ صرف اللہ اور اس کے رسول کی رضا مقصود ہے اور تم اہل بیت کی رضا چاہتا ہوں ، پھر انھیں راضی کرنے لگے بالآخر وہ راضی ہو گئیں ۔[4] حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے کہا: ’’ یہ سند جید و قوی ہے اور بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ عامر شعبی نے علی سے سنا ہے یا اس سے سنا ہے جس نے علی سے سنا ہے۔ ‘‘[5]
Flag Counter