Maktaba Wahhabi

526 - 677
فَہُوَ صَدَقَۃٌ)) ’’میری وراثت بصورت دینار تقسیم نہیں ہو گی۔ میری بیویوں کے نفقہ کے بعد اور میرے لیے عمل کرنے والوں کے خرچ کے بعد میں نے جو کچھ چھوڑا وہ صدقہ ہے۔‘‘[1] یہ اس لیے تھا کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں نے دنیا اور اس کے سامان کے برعکس اللہ، اس کے رسول اور دارِ آخرت کو اپنے لیے چن لیا تو ان کے لیے خوراک اورنان و نفقہ کا بندوبست کرنا ضروری ہو گیا۔ لیکن یہ میراث کی شکل نہ تھی اور اسی لیے ان کی رہائش گاہوں میں کسی نے ان سے تنازع نہ کیا۔ کیونکہ یہ سب کچھ ان کے اخراجات میں شمار ہوتا تھا جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں اپنے ہاتھ سے ان کے لیے مخصوص کیا تھا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَا تَرَکْتُ بَعْدَ نَفَقَۃِ نِسَائِیْ....)) [2] ’’میں نے اپنی بیویوں کے نفقہ کے بعد جو کچھ چھوڑا۔‘‘ اس بات کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات کے وارثوں نے کبھی ان کے گھروں میں میراث کا مطالبہ نہیں کیا اور اگر گھر ازواج النبی کی ملکیت میں ہوتے تو وہ ان کے وارثوں کی طرف منتقل ہو جاتے اور ان کے وارثوں کا اپنے حقوق کو ترک کرنا بھی اس کی دلیل ہے۔ اس لیے جب سب ازواج النبی وفات پا گئیں تو ان کے گھروں کو مسجد کی توسیع میں شامل کر لیا گیا تاکہ تمام مسلمان فائدہ اٹھائیں ، جیسے کہ ان نفقات کے ساتھ کیا گیا جو ان کو ملتے تھے۔ و اللّٰہ اعلم۔[3] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں آپ کے ترکہ میں سے ایک درہم کی بھی وارث نہیں بنیں ۔ صحیح بخاری و مسلم میں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تو آپ کی بیویوں نے سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو (امیر المومنین) سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس اپنی وراثت کے سوال کے لیے بھیجنا چاہا۔ تب عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس موقع پر کہا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا: ((لَا نُوْرَثُ، مَا تَرَکْنَا صَدَقَۃٌ)) [4]
Flag Counter