Maktaba Wahhabi

498 - 677
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس راز میں انھیں کیوں شریک نہ فرمایا؟؟ تو اس راز کی بابت تمہارا اعتقاد تو یہ ہے کہ کسی آدمی کا ایمان اس پر ایمان لائے بغیر مکمل نہیں ہوتا اور اگر ہماری امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا کی اصلیت وہ ہوتی جو تمہاری گناہ سے آلودہ ، ناپاک اور من گھڑت روایات بتاتی ہیں جنھیں تم ان کے خلاف اپنے کینے اور نفرت کی بنا پر تراشتے ہو تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنا راز انھیں کیوں بتلاتے اور کیا تمھیں ان کے متعلق جو باتیں معلوم ہیں وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم نہ تھیں اور تم ان کے متعلق زیادہ معلومات رکھتے ہو اور کیا ان کے عیوب کا علم تمھیں زیادہ ہے، اس معصوم علیہ السلام سے جس پر اللہ رب العالمین کی وحی نازل ہوتی تھی؟ پھر اگر بات یہ ہے کہ یہ راز ابوبکر کے خلیفہ ہونے اور اس کے بعد عمر کے خلیفہ ہونے پر مشتمل ہے تو گویا تم نے اپنے دین کی دھجیاں بکھیر دیں اور شیعی مذہب کے پرخچے اڑا دئیے ، تم نے اپنے مذہب اور اپنے علماء پر ضلال مبین کا حکم لگا دیا، کیونکہ تم سب ولایت و وصیت علی کے دعویٰ کو چھپاتے ہو اور تم کہتے ہو کہ کتاب اللہ کی دلیل کے ذریعے سے علی کے بارے میں وصیت ثابت ہے حالانکہ اس کتاب کی تم تحریف کے دعوے دار ہو اور اس حدیث کے مطابق جو تم نے وضع کی ہے۔ یا تو تم اس راز کی صحت کا اعتراف کرو۔ اس طرح تم پورے مذہب شیعہ کو جڑ سے اکھیڑ دو گے اور تمہارا خود ساختہ مذہب تمہارے اپنے ہاتھوں اپنے انجام تک پہنچ جائے یا تم اس کے جھوٹ ہونے کا دعویٰ کرو۔ اس کے بعد تمھیں ہماری ماں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت کا اعتراف کرنا پڑے گا۔ تم خلوص کے ساتھ حق کی طرف رجوع کر لو گے۔ جس میں کوئی کجی نہ ہو گی اور حق وہی ہے جس پر اہل سنت نیکی کے ساتھ ڈٹے ہوئے ہیں ۔ اہل روافض کے تناقض کی واضح مثالیں ان کے اقوال میں موجود ہیں کہ کون سا راز افشاء کیا گیا اور کس نے افشاء کیا؟ان کے اصل مفسر قمی اور ان کے پیروکار کہتے ہیں کہ یہ راز ابوبکر کی ولایت اور ان کے بعد عمر رضی ا للہ عنہما کی ولایت پر مشتمل تھا۔ ہماری امی جان رضی اللہ عنہا نے یہ راز افشاء کیا۔[1] جبکہ دوسرے مفسرین جیسے فیض کاشانی[2]،
Flag Counter