Maktaba Wahhabi

497 - 677
(راز فاش کرنے کی) بات بتائی تو اس نے کہا تجھے یہ کس نے بتایا؟ کہا مجھے اس نے بتایا جو سب کچھ جاننے والا، ہر چیز سے باخبر ہے ۔ اگر تم دونوں اللہ کی طرف توبہ کرو (تو بہتر ہے) کیونکہ یقیناً تمہارے دل (حق سے) ہٹ گئے ہیں اور اگر تم اس کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کرو تو یقیناً اللہ خود اس کا مدد گار ہے اور جبریل اور صالح مومن اور اس کے بعد تمام فرشتے مددگار ہیں ۔‘‘ رافضیوں کے نزدیک ان دونوں کے دلوں کی کجی اور اسلام سے دونوں کے برگشتہ ہونے کی دلیل ہے۔ کیا یہ فعل ان کے کفر پر دلالت کرتا ہے کہ ان دونوں نے راز افشاء کیا، جس کے متعلق کسی نے کہا کہ اس سے مراد ابی بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت ہے اور دوسرے کہتے ہیں کہ یہ فرمان علی رضی اللہ عنہ کے وصی ہونے کی بابت ہے ۔ شیعہ کی نصوص کے مطابق اس شبہ کی تحقیق کرنے سے پہلے ہم اپنا تعجب ظاہر کرنا ضروری سمجھتے ہیں ، کیونکہ اہل تشیع کے بہتان پر تعجب لامحدود ہو گیا ہے۔ جب وہ ہر قبیح لقب ہماری امی جان سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر چپکاتے ہیں اور وہ انھیں مختلف برے القاب جیسے ام الشرور، شیطانہ۔ بلکہ انھوں نے اپنے ایک مجلے میں انھیں ’’ام المتسکعین‘‘ کے لقب سے ملقب کیا ہے۔ بلکہ ایک دریدہ دہن نے یہاں تک لکھ دیا ہے کہ ’’جہنم کے سات دروازوں میں سے ایک عائشہ کے لیے ہے۔ سورۃ حجر کی آیت لہا سبعۃ ابواب کی تفسیر میں لکھا ہے کہ جہنم کے سات دروازوں میں سے چھٹا دروازہ [عسکر] عائشہ کے لیے مخصوص ہے۔‘‘[1]اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے جس کے وہ مستحق ہیں ۔ جب ہم مومنین کی ماں کی تمہارے نزدیک یہ قدر و منزلت ہے تو کیا تمہارے پاس اتنی عقل بھی نہیں جو تمھیں جھوٹ گھڑتے وقت واضح تناقض سے محفوظ رکھے۔ ایک طرف تو تم سیّدہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں اتنا کینہ رکھتے ہو کہ اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، اسلام اور علی کا بدترین دشمن باور کرنے کی کوشش کرتے ہو اور ساتھ ہی ساتھ تم یہ کہتے ہو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا یہ خاص راز ہماری امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا کے سپرد کیا اور یہ تمہارے عقیدے کا نچوڑ اور جوہر ہے، یعنی علی رضی اللہ عنہ کی امامت والی حدیث جس سے تو یہ پتا چلتا ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں سب لوگوں سے زیادہ قریب تھیں کیونکہ کوئی انسان اپنا دلی راز اسے ہی دیتا ہے جو اس کے دل اور روح کے زیادہ قریب ہو ، جیسا کہ ضرب المثل ہے: ’’تیرا راز تیرے خون کی طرح ہے تو خوب غور کر کہ وہ کہاں محفوظ رہے گا۔‘‘ حالانکہ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی فاطمہ، داماد علی اور چچا عباس رضی ا للہ عنہن حیات تھے۔
Flag Counter