Maktaba Wahhabi

434 - 677
حج کے لیے مکہ آئی ہوئی تھیں ۔ اس نے آپ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا : آپ مجھے کس کی بیعت کا حکم دیں گی؟ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: تو علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لے۔ احنف نے کہا: کیا آپ مجھے یہ مشورہ دے کر خوش ہیں ؟ انھوں نے فرمایا: ہاں ۔ پھر احنف نے کہا: میں سفر حج سے واپسی پر علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں ملا اور ان کی بیعت کر لی۔ پھر میں بصرہ لوٹ آیا اور میری سمجھ کے مطابق معاملہ حل ہو چکا تھا۔‘‘[1] امام ابن حزم رحمہ اللہ مذکورہ لوگوں کی اپنی خوشی سے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کے متعلق لکھتے ہیں : ’’اور طلحہ و زبیر رضی ا للہ عنہما علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے۔ ان میں سے کسی نے بھی علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کو نہیں توڑا اور نہ ان پر کوئی عیب لگایا اور نہ ہی انھوں نے علی رضی اللہ عنہ کی کوئی ایسی خطا بیان کی جس سے وہ خلافت سے محروم ہو جاتے اور نہ ہی انھوں نے کسی اور کو امام بنایا اور نہ کسی اور کی امامت کی انھوں نے تجدید کی۔ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ مذکورہ باتوں میں سے کوئی بات کسی کی طرف منسوب کر دے۔‘‘[2] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں مہلب[3] کا قول نقل کیا: ’’یہ تاریخی حقیقت ہے کہ عائشہ اور جو لوگ اس کے ساتھ تھے ان میں سے کسی نے بھی علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خلافت میں کبھی اختلاف نہیں کیا اور نہ ان میں سے کسی نے کسی اور کو خلیفہ بنانے کی بات کی۔‘‘[4] حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے لکھا ہے: ’’البتہ جو جاہل رافضی اور غبی قصہ گو علی رضی اللہ عنہ کے لیے خلافت کی وصیت کی بات کرتے ہیں تو یہ نرا افتراء ، جھوٹا فسانہ اور بہتان ہے۔ اس سے تمام صحابہ پر خیانت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کے نفاذ میں کوتاہی لازم آتی ہے اور جس شخص کے لیے وصیت کی گئی تھی اس تک بحفاظت اور
Flag Counter