Maktaba Wahhabi

433 - 677
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ (علی رضی اللہ عنہ ) وصی کیسے ہیں جبکہ وہ شیعہ کی اپنی روایت کے مطابق امامت قبول کرنے سے انکاری ہیں ۔ جو درحقیقت علی رضی اللہ عنہ بطور ورع و تقویٰ کے کر رہے تھے۔ اگرچہ تمام مسلمانوں کا اجماع تھا کہ وہ اس وقت سب لوگوں سے بہتر تھے۔ لہٰذا سیّدہ عائشہ ام المومنین رضی اللہ عنہا پر رافضیوں کی یہ تہمت باطل ٹھہرتی ہے کہ انھوں نے وصیت نامہ چھپا لیا۔ بلکہ یہ روایت ان کی تصدیق و توثیق کرتی ہے۔ جب ان سے کہا گیا کہ علی رضی اللہ عنہ کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کی ہے، تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے کب وصیت کی؟ جبکہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری لمحات میں آپ کو اپنے سینے کے ساتھ لگایا ہوا تھا یا انھوں نے فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک میری گود میں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے برتن منگوایا، آپ کی روح میری گود میں قبض ہوئی لیکن مجھے پتا نہ چلا کہ آپ فوت ہو چکے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان (علی رضی اللہ عنہ ) کے لیے کب وصیت کی؟[1] سیّدنا طلحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’میں نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے پوچھا، کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کی تھی؟ اس نے کہا: نہیں ۔ تو میں نے کہا: تو لوگوں پر وصیت کا نفاذ کس طرح فرض ہو گیا یا انھیں کس طرح حکم دیا گیا؟ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب اللہ پر عمل کرنے کی وصیت کی تھی۔‘‘[2] اہل تشیع کے اس بہتان کی دھجیاں ان کی اپنی روایات سے ہی اڑتی ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیعت علی کے لیے تائید و حمایت کی اور وہ ان کی خلافت کی کبھی مخالف نہ رہیں ۔ اس دعویٰ کے دلائل کے طور پر ہم احنف بن قیس کا واقعہ تحریر کرتے ہیں : ’’احنف بن قیس جب مدینہ آیا تو دیکھا کہ عثمان رضی اللہ عنہ کا محاصرہ کر لیا گیا ہے۔ چنانچہ اس نے طلحہ اور زبیر رضی ا للہ عنہما سے ملاقات کی اور ان دونوں سے اس نے پوچھا: تم دونوں مجھے کس کا ساتھ دینے کا مشورہ دیتے ہو اور تم خود بھی اس پر خوش ہو کیونکہ میں دیکھ رہا ہوں کہ اس خلیفہ (عثمان) کو شہید کر دیا جائے گا؟ ان دونوں نے کہا: تم علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل جاؤ۔ پھر احنف نے کہا: کیا تم دونوں مجھے یہی مشورہ دے رہے ہو اور کیا تم اس پر خوش ہو؟ ان دونوں نے کہا: ہاں ! پھر احنف مدینہ سے روانہ ہو کر مکہ پہنچ گیا۔ جب وہ مکہ پہنچا تو سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر اسے مل گئی۔ وہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی ملاقات کے لیے ان کی طرف چل دیا: جو ان دنوں
Flag Counter