Maktaba Wahhabi

261 - 677
تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کانپتے جسم کے ساتھ واپس آئے اور خدیجہ کے پاس چلے گئے اور فرمانے لگے: ’’مجھے کپڑا اوڑھا دو۔ مجھے کپڑا اوڑھا دو۔‘‘ آپ کو گھر والوں نے کپڑا اوڑھا دیا، حتیٰ کہ آپ سے خوف دُور ہو گیا۔ جب آپ پرسکون ہوگئے تو خدیجہ رضی اللہ عنہا کو پکارا: اے خدیجہ! میرا کیا قصور ہے؟ مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے اور آپ نے انھیں پورا واقعہ سنایا۔ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ہرگز نہیں ، آپ خوش ہو جائیں ! پس اللہ کی قسم! اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا۔ پس اللہ کی قسم! بے شک آپ صلہ رحمی کرتے ہیں ، سچ بولتے ہیں ، محنت کشوں کا ہاتھ بٹاتے ہیں ، محتاج کی مدد کرتے ہیں ، مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کے راستے میں مصائب و مشکلات کو برداشت کرنے کے لیے مدد کرتے ہیں ۔ خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ لے کر ورقہ بن نوفل کے پاس پہنچیں جو خدیجہ رضی اللہ عنہا کا چچا زاد تھا اور وہ جاہلیت میں نصرانی مذہب پر تھا اور عربی میں کتابت کرتا اور اللہ جو چاہتا اس سے انجیل کو عربی میں لکھواتا۔ وہ بڑھاپے کو پہنچ چکا تھا اور اس کی آنکھیں ضائع ہو چکی تھیں ۔ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اس سے کہا: اے میرے چچا زاد! آپ اپنے بھتیجے کی روئیداد سنیں ۔ ورقہ نے کہا: اے بھتیجے تو کیا دیکھتا ہے؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی آپ بیتی سنائی۔ سن کر ورقہ نے کہا: یہ وہی ناموس ہے جو موسیٰ علیہ السلام پر اترا تھا کاش میں اس وقت نوجوان[1] ہوتا کاش میں زندہ رہتا۔ ورقہ نے ۔کچھ کہا (کہ جب آپکو آپ کی قوم نکال دے گی)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا وہ مجھے نکال دیں گے؟‘‘ ورقہ نے کہا: ہاں ۔ جس آدمی نے بھی یہ بات کی جو آپ کر رہے ہیں تو اسے ضرور تکلیف دی گئی اور اگر میں اس دن زندہ ہوا جس دن آپ کو ان حالات کا سامنا کرنا پڑے گا تو میں آپ کی ضرور بالضرور مدد کروں گا۔ پھر زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ ورقہ فوت ہو گیا اور کچھ عرصہ کے لیے وحی رک گئی یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غمگین ہو گئے۔[2] جو زمانہ جاہلیت کے واقعات تھے ان میں سے بیشتر سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے والد محترم ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے سنے ہیں جو سب لوگوں سے زیادہ عربوں کی مہمات، خانہ جنگیوں اور ان کے انساب کے
Flag Counter