Maktaba Wahhabi

248 - 677
ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى ﴾ (الاسراء: ۱۵) ’’اور کوئی بوجھ اٹھانے والی (جان) کسی دوسری (جان) کا بوجھ نہیں اٹھاتی۔‘‘ تو انھوں نے حدیث کو یوں صحیح کہا کہ کافر میت کے اہل خانہ اس پر روتے ہیں اور اسے عذاب ہو رہا ہوتا ہے۔[1] ب:....حدیث کو سنت پر پیش کرنا: اس کی مثال ((اَلْمَائُ مِنَ الْمَائِ)) منی سے غسل واجب ہوتا ہے۔ والی روایت پر ان کا اعتراض ہے کہ ان کے علم کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اِذَا الْتَقَی الْخَتَانَانِ فَقَدْ وَجَبَ الْغُسْلُ)) [2] ’’جب ختنے والے مقامات آپس میں مل جائیں تو غسل واجب ہو جاتا ہے۔‘‘ ج:....حدیث کو قیاس پر پیش کرنا: اس کی مثال جنازہ اٹھانے سے وضو کرنے والی حدیث ہے، اگرچہ انھوں نے اس روایت کے انکار کے لیے اس حدیث پر اعتماد کیا کہ مومن ناپاک نہیں ہوتا زندہ ہو یا میت۔ چنانچہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بقول مسلمان طاہر ہوتا ہے اور وہ موت سے ناپاک نہیں ہوتا۔ اسی لیے اس کی نعش بھی پاک ہوتی ہے۔ تو اس کے اٹھانے سے وضو کیسے لازم آئے گا۔[3] پھر انھوں نے تفکر و تدبر کیا اور کہا: کیا مسلمان میت نجس ہوتی ہے؟ اور اگر کوئی آدمی لکڑی (چارپائی) اٹھائے تو اس پر وضو کیسے واجب ہو گا؟[4] گویا اس نے مسلمان کے جنازہ کے اٹھانے کو چارپائی کو کندھا دینے پر قیاس کیا اور نتیجہ یہ نکالا کہ چارپائی اٹھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا اور سیّدنا ابن عباس رضی ا للہ عنہما نے بھی اسی قیاس سے استدلال کیا۔[5] د:....حدیث کو صحابہ کے اقوال پر پیش کرنا: چونکہ صحابہ کرام بھی وہی کہتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہو۔ بالفاظ دیگر جو قول یا فعل
Flag Counter