Maktaba Wahhabi

247 - 677
سے بدبو آنے لگتی، ان میں سے ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَوْ اَنَّکُمْ تَطَہَّرْتُمْ لِیَوْمِکُمْ ہٰذَا)) [1] ’’کاش تم اپنے اس دن کے لیے طہارت (غسل) کر لو۔‘‘ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی دوسری روایت میں ہے: ’’لوگ اپنے کام کاج خود[2]کرتے تھے اور جب وہ جمعہ کے لیے آتے تو وہ اپنی اسی حالت میں چلے آتے چنانچہ انھیں کہا گیا کاش تم غسل کر لیتے۔‘‘[3] اسی طرح سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے تصحیح کے لیے جو متون احادیث لائے جاتے انھوں نے ان کی تصحیح کے لیے کچھ وسائل بھی اختیار کر لیے تھے۔ مثلاً: الف:.... حدیث کو قرآن پر پیش کرنا: چنانچہ مسئلہ رویت الٰہی میں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ بات تسلیم نہ کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے اور اپنے اس انکار قرآن کی اس آیت سے تقویت دی جو بعض صحابہ کی مرویات میں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ﴾ (الانعام: ۱۰۳) ’’اسے نگاہیں نہیں پاتیں اور وہ سب نگاہوں کو پاتا ہے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان پیش کیا: ﴿ وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللّٰهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ ﴾ (الشورٰی: ۵۱) ’’اور کسی بشر کے لیے ممکن نہیں کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر وحی کے ذریعے، یا پردے کے پیچھے سے، یایہ کہ وہ کوئی رسول بھیجے، پھر اپنے حکم کے ساتھ وحی کرے جو چاہے۔‘‘ ب:اسی طرح وہ حدیث جس میں ہے کہ ’’بے شک میت کو اس کے اہل خانہ کے اس پر رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔‘‘ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس پر یہ شبہ ظاہر کیا کہ اس طرح گویا میت کو دوسروں کے گناہ سے عذاب ہوتا
Flag Counter