Maktaba Wahhabi

219 - 677
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا تمہارے پاس تمہارا شیطان آ یا ہے؟‘‘ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: اے رسول اللہ! کیا میرے ساتھ شیطان ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جی ہاں !‘‘ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے پوچھا: کیا ہر انسان کے ساتھ شیطان ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں ۔‘‘ میں نے کہا: اور اے رسول اللہ! کیا آپ کے ساتھ بھی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں ، (میرے ساتھ بھی ہے) لیکن میرے رب نے اس کے خلاف میری مدد کی ہے، چنانچہ وہ تابع ہو گیا۔‘‘ یا فرمایا: ’’میں اس سے محفوظ ہو گیا ہوں ۔‘‘[1] سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بار بار استفسارات سے امت مسلمہ کو جو فائدہ ہوا اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں ۔ جیسا کہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس دوشیزہ کے بارے میں استفسار کیا، جس کے گھر والے اس کی شادی کرنا چاہتے ہوں ، کیا اس سے مشورہ کیا جائے گا یا نہیں ؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ’’ہاں ! اس سے مشورہ کیا جائے گا۔‘‘ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: وہ تو شرمائے گی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’شرم سے اس کا خاموش رہنا ہی اس کی رضامندی ہے۔‘‘[2] سوال کرنے سے علم میں اضافہ ہوتا ہے جب کہ شرمیلے پن میں علم کی بڑھوتری بہت کم ممکن ہے۔ جیسا کہ مجاہد[3] رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’شرمیلا اور متکبر انسان علم حاصل نہیں کر سکتے۔‘‘ اس خوبی کی وجہ سے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بے شمار صحیح احادیث نبویہ کی راویہ ہیں جو اور کسی صحابہ کے پاس نہ تھیں کیونکہ بڑے بڑے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیبت و جلالت سے مرعوب رہتے اور سوال کرنے کی جرات نہ کرتے اور سیّدنا انس رضی اللہ عنہ کے بقول: ’’صحابہ رضی اللہ عنہم پسند کرتے تھے کہ کوئی دیہاتی آئے جو سمجھ دار اور معاملہ فہم ہو اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال پوچھے اور ہم آپ کے جوابات سنتے رہیں ۔‘‘[4] ٭٭٭
Flag Counter