Maktaba Wahhabi

217 - 677
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اِنَّمَا ذٰلِکَ الْعَرْضُ، وَ لٰکِنْ مَنْ نُوْقِشَ الْحِسَابَ یَہْلِکُ)) [1] ’’یہ تو صرف حساب منعقد ہونے کی بات ہے جس کا محاسبہ ہو گا وہ ہلاک ہو جائے گا۔‘‘ (۲)سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ عزوجل کے اس فرمان کے متعلق دریافت کیا: ﴿ يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ ﴾ (ابراہیم: ۴۸) ’’جس دن یہ زمین اور زمین سے بدل دی جائے گی اور سب آسمان بھی۔‘‘ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا: ’’اے اللہ کے رسول! اس دن لوگ کہاں ہوں گے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ پل صراط پر ہوں گے۔‘‘[2] (۳)سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اے اللہ کے رسول ! جاہلیت میں ابن جدعان صلہ رحمی کرتا اور مسکینوں کو کھانا کھلاتا تھا، تو کیا یہ افعال اسے نفع دیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَا یَنْفَعُہٗ اِنَّہٗ لَمْ یَقُل یَوْمًا رَبِّ اغْفِرْلِیْ خَطِیْئَتِیْ یَوْمَ الدِّیْنِ)) [3] ’’ان افعال کا اسے کوئی فائدہ نہیں ہو گا، کیونکہ اس وقت اس نے یہ نہیں کہا کہ اے میرے رب! تو قیامت کے دن میرے گناہ معاف فرما دے۔‘‘ (۴)جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینے کے لیے ایلاء کیا یعنی قسم اٹھا لی کہ آپ اپنی ازواج کے پاس ایک ماہ تک نہیں جائیں گے۔ تو جب انتیس راتیں گزریں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے۔ انہی سے ابتدا کی تو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ نے تو ہمارے پاس ایک ماہ تک نہ آنے کی قسم اٹھا ئی تھی جب کہ آج انتیسویں رات ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مہینہ انتیس راتوں کا بھی ہوتا ہے۔‘‘ وہ مہینہ واقعی انتیس راتوں کا تھا۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : پھر اللہ تعالیٰ نے آیت تخییرنازل فرمائی۔[4]
Flag Counter