Maktaba Wahhabi

137 - 677
لیا ہو کیونکہ آپ کو اس کی محبت پر ضبط نہیں تھا۔ بہرحال میرے ساتھ ایسا کچھ نہ ہوا۔‘‘[1] ۳۔سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ’’وہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور اسے یوں مخاطب کیا۔ اے بیٹی! تو اس عورت کے معاملہ میں کبھی دھوکا نہ کھانا جس کے حسن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت نے پسند کر لیا۔ ان کی مراد عائشہ رضی اللہ عنہا تھیں تو حفصہ رضی اللہ عنہا نے اپنے باپ کی اس نصیحت کا تذکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا۔ آپ مسکرا دئیے۔‘‘[2] صحابہ رضی اللہ عنہم کو ان (عائشہ رضی اللہ عنہا ) کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شدید محبت کا اس قدر یقینی علم تھا کہ (ان) عائشہ رضی اللہ عنہا کی خوشنودی نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک سفارش کا ذریعہ بن گئی۔ ذرا غور کریں ! یہ ہیں ہماری والدہ محترمہ سیّدہ سودہ رضی اللہ عنہا جب ان کے دل میں یہ وسوسہ پیدا ہوا کہ امور خانہ داری اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق زوجیت کو وہ صحیح طریقے سے ادا نہیں کر سکتیں اور ان میں مردوں کی دلچسپی کا کوئی اشارہ بھی نہیں رہا، تو انھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جدائی کے غم نے آ گھیرا۔ چنانچہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے التجا کی کہ وہ اپنی باری سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو ہبہ کرتی ہیں اور ان کا خیال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دیگر بیویوں میں سے کسی کی طرف نہ گیا کیونکہ انھیں بخوبی علم تھا کہ ہماری والدہ محترمہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا آپ کو سب سے زیادہ محبوب ہیں اور کوئی دوسرا اس میں شریک نہیں ۔[3] اس فضیلت کے ثبوت غیر متناہی ہیں ۔ تاآنکہ ہماری والدہ محترمہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں سب سے اونچی شان و مرتبت والی ہو گئیں ۔ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’بے شک کسی شخص کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت بہت بڑی فضیلت ہے اور یہ بات ایسی ہی ہے جیسے کہ فتح خیبر کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے لیے فرمایا: ’’کل میں جھنڈا اسے ہی دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت
Flag Counter