Maktaba Wahhabi

132 - 677
چھوڑتی ہوں ۔‘‘[1] گویا سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے محبت کے بدلے محبت اور عادت کے بدلے عادت کا تبادلہ کیا۔ ایک دن سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر کے اندر سے اُن کی بلند آواز سنی جبکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی معاملہ میں باتیں کر رہی تھیں تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کو جا کر پکڑ لیا اور زجر و توبیخ کرنا چاہی اورکہا: ’’کیا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تمہارا بلند آواز میں گفتگو کرنا نہیں سنا؟ (مطلب یہ کہ سن لیا ہے)‘‘ ایک روایت کے مطابق ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انھیں یوں مخاطب کیا: ’’اے فلاں عورت کی بیٹی!رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی آواز بلند کیوں کر رہی ہو؟‘‘ اس صورت حال کو دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم دونوں باپ بیٹی کے درمیان میں کھڑے ہو گئے۔اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ (سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر) غصے میں بھرے ہوئے وہاں سے چل پڑے۔ جب ابوبکر رضی اللہ عنہ چلے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم نے دیکھ لیا کہ میں نے اس مرد جرّی سے تمھیں کیسے بچایا؟‘‘ کچھ دن گزرے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کی اجازت طلب کی۔ جب انھوں نے ان دونوں کو دیکھا کہ وہ خوش باش ہیں ، اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کو مسکراتے ہوئے دیکھا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان دونوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’’جس طرح آپ دونوں نے مجھے اس روز کی تلخی میں شامل کیا تھا اسی طرح اب مجھے اپنی باہمی خوشی میں بھی شریک کیجئے۔‘‘ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہمیں منظور ہے، ہمیں منظور ہے۔‘‘[2] بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حمایت میں ان کو تکلیف دینے والی سب اشیاء کو دُور کر دیا۔ خواہ وہ ان کے باپ کی طرف سے ہی ہوں اور آپ ہمیشہ انھیں خوش رکھنے اور راضی رکھنے کے لیے اور ان کے طیب خاطر کے لیے نرم رویہ اختیار کرتے۔ ان سب معمولات سے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ
Flag Counter