Maktaba Wahhabi

129 - 677
’’اس روایت کے ان الفاظ میں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انتہا درجے کی موافقت کا اشارہ پنہاں ہے۔ یہاں تک کہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا درد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی محسوس کیا۔ گویا آپ نے اپنی سچی محبت کا اظہار فرمایا اور ان کے درد کو اپنا درد قرار دیا۔‘‘[1] علامہ ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’جب سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ’’ہائے میرا سر‘‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی زبان اقدس سے یہ فرمانا: ’’بلکہ ہائے میرا سر‘‘ یعنی تم سے زیادہ میرے سر میں تکلیف ہے۔ تم تو میری وجہ سے پرسکون ہو جاؤ اور شکوہ مت کرو اور یہاں یہ مسئلہ بھی واضح ہوتا ہے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب بیوی تھیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی سب بیویوں سے زیادہ محبت انھی کے ساتھ تھی۔ جب انھوں نے اپنے سر کی شکایت آپ کے سامنے رکھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یوں گویا ہوئے کہ ان کے محبوب کو بھی انھی جیسی تکلیف ہے اور یہ کسی محبوب کی اپنے محبوب کے ساتھ حد درجہ کی موافقت ہے جو ایک دوسرے کے دکھ درد اور خوشی و فرحت میں شریک ہوتے ہیں ۔ حتیٰ کہ جب محبوبہ کے جسم کا کوئی حصہ درد محسوس کرتا ہے تو اس کے محبوب کا بھی وہی عضو بیمار پڑ جاتا ہے اور یہ سچی اور پاکیزہ محبت کی لاثانی مثال ہے۔ چونکہ پہلے معنی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں یہ نصیحت فرمائی کہ تم اپنی تکلیف کی شکایت نہ کرو اور صبر کرو۔ کیونکہ جو تکلیف تمھیں ہے وہ مجھے بھی ہے۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبر اور عدم شکایت کے ذریعے انھیں ہمدردی جتائی۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان کے لیے سچی محبت کا اعلان ہے، یعنی تم اپنے ساتھ میری شدید محبت کا اندازہ کرو۔ میں نے تمہارے سر درد اور تمہاری تکلیف میں تمہارے ساتھ کس طرح ہمدردی کا اظہار کیا۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مطلب تھا کہ کیسے ممکن ہے کہ میں تندرست رہوں اور تم بیمار ہو جاؤ۔ بلکہ جو چیز تمھیں دکھ پہنچائے وہ مجھے دکھ پہنچاتی ہے اور مجھے بھی وہی چیز خوش کرتی ہے جو تمھیں خوش کرے۔ بقول شاعر:
Flag Counter