Maktaba Wahhabi

55 - 69
فَاِنْ اَطَعْنَکُمْ فَلااَا تَبْغُوْا عَلَیْھِنَّ سَبِیْلًا (سورة النساء آیت نمبر۳۴) دیگر حقوق بھی ہیں؛ فرمایا: وَ لَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ (سورہ البقرہ :۲۲۸) اسی طرح حدیث شریف میں ہے عورت شوہر کی مکمل اطاعت کرے، شوہر کی بلا اجازت کسی کو گھرمیں نہ آنے دے، نفلی عبادت بھی شوہر کے اذن سے کرے، گھر کے کام کاج کرنا جس طرح سیدہ فاطمہ کیا کرتی تھیں ۔ حتیٰ کہ ہاتھوں میں چھالے پڑجاتے تھے۔ (دیکھئے صحیح بخاری شریف)۔ جناب نے خاندان بھر کی خدمت سے روکتے روکتے شوہر کی اطاعت و خدمت سے بھی روک دیاآخر کس دلیل سے؟ اگر جناب کی خدمت محترمہ نہیں کرتیں تو ہم کیا کریں۔ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا گھر کے سارے کام اپنے ہاتھوں سے سر انجام دیتی تھیں اور روٹی نہ پکا سکنے پر پڑوسنیں آکرروٹی پکاجاتیں۔(بخاری و مسلم) یہ واقعہ خود اسماء بنت ابی بکر اپنی شادی کے بعد بیان فرماتی ہیں۔ عورت پر شوہر کا یہ بھی حق ہے کہ وہ اس کے مال کی حفاظت کرے۔ (مسند احمد و ترمذی) مزید دلائل بھی پیش کیے جاسکتے ہیں، مگر ماننے والوں کے لئے تو ایک ہی دلیل کافی ہے۔ واللّٰه الھادی۔ قرآن و سنت میں ہر وہ چیز عورت پر واجب کی گئی ہے، جو شوہر کی اطاعت کے زمرے میں آتی ہے۔ اب موصوف اس کے منکر ہیں تو ہوتے رہیں، انہیں آنکھ بند ہوتے ہی سب کچھ سمجھ آجائے گا۔ان شاء اللہ۔ ویسے جناب کا عورت کے لئے حق زوجیت کو باقی رکھنا یا واجب قرار دینا، کیا جناب کی ذہنی شہوت پرستی کی غمازی نہیں ہے؟ اگر یہ حق قرآن و سنت میں ہے تو اور بھی حقوق قرآن و سنت میں ہیں،جن میں سے چند ایک ہم نے بیان کردیئے ہیں۔ والحمد للّٰه۔ شبہ طلاق: لکھتے ہیں! اس شبہ میں شوہر کو مکمل اختیار دیا جاتا ہے، حاکم و جابر سرغنہ کی طرح اور اس کو طلاق کا حق دے دیا جاتا ہے۔
Flag Counter