Maktaba Wahhabi

54 - 69
دیکھ بھال کرنا یہ تمام ذمہ داریوں میں شامل نہیں بلکہ یہ احسان ہے شوہر پر۔ پھر سورة نساء کی آیت ۲۴ پیش کر کے اس سے زبردستی اپنا مطلب کشید کرتے ہوئے تفسیر بالرائے میں فرماتے ہیں: یہ بات سنت مبارکہ سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیوی کا حق شوہر کے لئے سوائے حق زوجیت کے کچھ اور نہیں قرار دیا۔پھر کچھ آگے چل کر لکھتے ہیں! غور طلب بات یہ ہے کہ اگر کتاب و سنت کے حوالے سے شوہر کی خدمت گزاری کرنا ثابت نہیں تو پھر شوہر کے ماں باپ کی خدمت کہاں سے واجب ہوگئی؟ (صفحہ:۱۲۶ سے ۱۲۸تک دیکھئے)۔ تحقیقی نظر: موصوف کو اس قدر عورت فوبیا ہو گیا ہے کہ انہیں معلوم بھی نہیں ہوتا کہ وہ کیا ہذیان بک رہے ہیں؟کیا قرآن ،کیا سنت ،سب کو یکلخت اپنی رائے سے بدل ڈالتے ہیں۔ جناب کا عورت کو نوکرانی کہے جانا کھل رہا ہے تو سوال یہ ہے کہ اس نظریہ کا کون حامل ہے؟ جا کراسی سے شکوہ کیجئے تمام مسلمانوں کو ہدف تنقید کیوں بنارہے ہیں؟ باقی رہا خاندان بھر کی خدمت، تو جناب نے یہ بھی غلط فرمایا کوئی بھی خاندان بھر کی خدمت نہیں کرواتا۔ کیا جناب کے ہاں سارا خاندان ایک ساتھ ہی رہتا ہے؟ جب ایک ساتھ رہنا ہی ممکن نہیں تو پھر خدمت کیسے ممکن ہے؟ اہل السنة کے ہاں تو کوئی اس عمل کا قائل و فاعل نہیں ہے، البتہ موصوف کے نظرئیے (چہرہ کا پردہ نہیں ہے) سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ جناب عورت کو خاندان بھر کی خادمہ بنانا چاہتے ہیں اور وہ بھی بے پردہ۔آیت سے استدلال کرکے یہ کہنا کہ عورت فقط اپنے ہی والدین کی خدمت کرے گی وغیرہ وغیرہ تویہ بھی صحیح نہیں، کیونکہ عورت تو شوہر کے گھر میں ہوتی ہے نہ کہ والدین کے گھر میں۔ شاید موصوف بالکل ہی عقل کھو بیٹھے ہیں جو اتنی سی بات بھی نہیں سمجھ سکتے۔موصوف نے نہ جانے کس آیت اور کس سنت سے عورت کو فقط حق زوجیت کی ادائیگی کی ذمہ داری دی ہے (اور شکر ہے کہ یہ ذمہ داری دی ہے اگر یہ بھی نہ دیتے تو ہم کیا کرلیتے)۔ قرآن مجید میں تو شوہر کی کامل مکمل اطاعت کا بھی ذکر ہے فرمایا:
Flag Counter