Maktaba Wahhabi

52 - 69
۲…مطلقہ غیر مدخول بہا جس کا مہر بھی مقرر نہ کیا گیا ہواور اس آیت (یعنی سورة بقرہ) میں اسی کا ذکر ہے۔ اسے مہر نہیں بلکہ متعہ (خرچہ) دیا جائے گا۔ ۳…مطلقہ غیر مدخول بہا جس کا حق مہر مقرر ہو چکا ہو۔ ۴…مطلقہ مدخول بہا جس کا مہر بھی مقرر نہ کیا گیا ہو اور اس کا ذکر سورة نساء آیت ۲۴ میں ہے۔ اس بیان کی روشنی میں موصوف کا تصور مہر کا خود ساختہ نظریہ پاش پاش ہوجاتا ہے اور از خود خلاف قرآن و سنت ثابت ہوجاتاہے۔امام شوکانی رحمہ اللہ نے اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ نکاح کے بعد قبل از دخول اور قبل از تقرر مہر طلاق پر صرف متعہ (خرچ) ہی دینا ہے نہ کہ مہر۔ (فتح القدیر) فاعتبروا یا اولی الابصار اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ جناب کا کل مہر بعد میں ادا کرنے کو قرآن و سنت کی حکم عدولی قراردینا بلا دلیل و بے بنیاد ہے۔ ویسے کیا ہم سوال کرسکتے ہیں کہ کیا کل مہر کی جگہ بعض مہر بعد میں کبھی ادا کیا جائے تو کیا یہ آپ کو منظور ہوگا؟ کس دلیل کی بنیاد پر؟ موصوف کی پیش کردہ سورة بقرہ کی آیت نمبر۲۳۶ میں وارد لفظ ومتعوھن کی تفسیر میں حبرالامة جناب عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ حکم اس مرد کو ہے، جس نے ایک عورت سے نکاح کیا اور حق مہر (ابھی) مقرر نہ کیا تھا کہ قبل الدخول ہی طلاق دے بیٹھا (گویا ومتعوھن (خرچ دو) مہر کی نفی ہے) ۔ (دیکھئے فتح القدیر از شوکانی) اس تفسیر کی روشنی میں جناب کی فہم ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فہم کے بالکل مخالف و متضاد ہے۔صحیح ابو داوٴد شریف میں باب قائم کیا گیا ہے اگر کوئی نکاح کے وقت مہر مقرر نہ کرے اور پھر اس کی وفات ہو جائے تو ؟ اور اس باب کے تحت یہ واقعہ موجود ہے، کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مسئلہ پوچھا گیا کہ ایک شخص نے کسی عورت سے شادی کی پھر وفات پا گیا ،جبکہ ان کا ملاپ نہ ہوا تھا اور نہ حق مہر ہی مقرر کیا
Flag Counter