Maktaba Wahhabi

51 - 69
اب سوال یہ ہے؟ کہ زندگی بھر جو رشتہ قائم تھا نکاح کا اس کی ایک لازمی شرط مہر ادا کرنا تھا جو نہیں ادا کیا گیا، نتیجے کے طور پر یہ رشتہ حرام کا رشتہ ٹھہرا۔ دشمنان اسلام وزن نے کسی بھی موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا، جس سے انہوں نے عورت کی تذلیل و تحقیر نہ کی ہو۔ تاریخ کا مطالعہ اس بات کو باورکراتا ہے کہ مہر نہ دینا قدیم اہل عراق کا دستور رہا ہے۔ (صفحہ:۱۱۳ تا ۱۱۴)۔ تحقیقی نظر: اس شبہ خود کشیدہ میں جناب نے بغیر ذکر کئے، کئی ایک احادیث سے عداوت کا اظہار کیا ہے (جس کی تفصیل آگے آرہی ہے)۔باقی رہا موصوف کا اس پر ناراض ہونا کہ مہر ادا نہیں کیا جاتا تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ ایسے لوگوں کو آپ جانتے ہوں گے۔ جائیے ان پر حجت قائم کیجئے، تمام مرد حضرات کو بلاوجہ مطعون نہ کیجئے کہ یہ بہتان ہے۔ اور جہاں تک سورہ نساء اور سورہ بقرہ کی آیات سے استدلال، کہ مہر فوراً (نکاح کے وقت) ادا کرناتو یہ پورے قرآن میں کہیں بھی نہیں ہے۔ جناب کی فقط خود ساختہ ترجمانی ہے جیسا کہ اور جگہ یہی دھاندلی کی ہے کہ پہلے مسئلہ بناتے ہیں پھر قرآن سے دلیل ڈھونڈتے ہیں۔جناب کی پیش کردہ آیت بقرہ تو جناب کے نظریہ کی تردید کرتی ہے۔ جناب ترجمہ میں لکھتے ہیں اور اگر تم عورتوں کو اس صورت میں طلاق دو کہ نہ ان کو چھوا ہو اور نہ ان کے لئے مہر مقرر کیا ہو تو ان کے مہر کے بارے میں تم پر کوئی حرج نہیں اور خرچ دو ان کو شرع کے مطابق ۔ اب بتائیں اس میں نکاح کے وقت فوراً مہر ادا کرنے کاذکر کہاں ہے؟بلکہ یہاں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ نکاح کے بعد زندگی گزارتے ہوئے طلاق کی نوبت آگئی اور ابھی حق مہرطے بھی نہیں ہوا۔ نیز متعہ دینا (خرچ دینا) خود اس بات کا متقاضی ہے کہ مہر نہیں دیا جائے گا۔فافھم امام شوکانی رحمہ اللہ فتح القدیر میں لکھتے ہیں کہ مطلقہ چار قسم کی ہوتی ہیں : ۱…مطلقہ مدخول بہا جس کا مہر مقرر کیا جا چکا ہو۔
Flag Counter