Maktaba Wahhabi

93 - 169
طرف لوٹ آئے۔‘‘ یہ آیت اِس بات کی دلیل ہے کہظلم کرنے والے مسلمان کے ساتھ بھی لڑائی ضروری ہے تا کہ اُسے ظلم وفساد سے روکا جا سکے۔ ایک اور جگہ ارشاد ہے: ﴿وَالَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَھُمُ الْبَغْیُ ھُمْ یَنْتَصِرُوْنَ﴾(الشوری: ۳۹) ’’اور وہ لوگ کہ جن کے ساتھ اگر زیادتی یا ظلم ہو تو وہ بدلہ لیتے ہیں۔‘‘ ایک اور جگہ ارشاد ہے: ﴿فَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ﴾(البقرۃ: ۱۹۴) ’’ پس جو کوئی تم سے زیادتی کرے تو تم بھی اس سے اتنی ہی زیادتی کرو جتنی کہ اس نے تمہارے ساتھ کی ہے۔‘‘ لیکن اِن آیات کا یہ مطلب بالکل بھی نہیں ہے کہ انسان کے پاس ظلم کے اِزالے یا بدلہ لینے کی اہلیت و استطاعت نہ ہو اور پھر بھی وہ ظالم سے ٹکرا جائے اور اِس طرح اپنا مزید نقصان کر لے۔یہ خطاب اُنہی لوگوں سے ہے جو ظلم کابدلہ لینے کی استطاعت وصلاحیت رکھتے ہوں۔ اِس کی دلیل یہ ہے کہ مکہ مکرمہ میں جبکہ بدلہ لینے کی استطاعت وصلاحیت نہ تھی اُس وقت بھی ظلم ہو رہا تھا لیکن اللہ کی طرف سے مسلمانوں کو صبر ومصابرت اور ہاتھ روکنے کا حکم تھا۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے: ﴿اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ قِیْلَ لَھُمْ کُفُّوْٓا اَیْدِیَکُمْ وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیْھِمُ الْقِتَالُ…﴾(النساء: ۷۷) ’’کیا آپ نے اُن لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو کہا گیا تھاکہ تم اپنے ہاتھ باندھے رکھو اور نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو ،پس جب اُن پر قتال فرض کیا گیا ...۔‘‘ اِس آیت میں صریحاً اشارہ ہے کہ پہلے ظلم کے مقابلے میں ہاتھ نہ اٹھانے کا حکم تھا ، پھر بدلہ لینے کی اجازت بھی نازل ہو گئی۔ لہٰذا ظلم کے جواب میں صبرکرنا اور ظلم کے جواب میں بدلہ لینا دونوں ہی اسلام کے منہج ہیں اور تاحال جاری ہیں اور اِس کا فیصلہ حالات کے تحت ہو گا کہ صبر کرنا ہے یا بدلہ لینا ہے۔ خان صاحب اسلامی تحریکوں کو یہ الزام دیتے نظر آتے ہیں کہ یہ انقلابی تحریکیں عوام
Flag Counter