Maktaba Wahhabi

89 - 169
سے بچائیں.......میرا مشورہ ہے کہ آپ حقیقت پسند بنیں ،رومانی تصورات میں جینے کی ہر گز کوشش نہ کریں۔ اِس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ آپ فکرِ اقبال اور فکرِ مودودی کے خول سے مکمل طور باہر آ جائیں،ورنہ آپ کے لیے کبھی بھی اپنی اصلاح ممکن نہ ہوگی۔‘‘(ماہنامہ الرسالہ: مئی ۲۰۱۱ء،ص۳۹) ایک اور جگہ لکھتے ہیں: ’’ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ تخلیق انسانی سے پہلے جب اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا تو اِس وقت وہاں آدم کے سوا دو مخلوق اور موجود تھی: فرشتے اور جنات۔ اللہ نے حکم دیا کہ تم لوگ آدم کے آگے جھک جاؤ۔ فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل کی،لیکن ابلیس(جنات کا سردار)نے اللہ کے اس حکم کو ماننے سے انکار کیا،وہ اللہ کا باغی بن گیا۔ یہ تاریخ انسانی میں،اتھارٹی(authority)کے خلاف بغاوت کا پہلا واقعہ تھا۔ یہ سیاسی بغاوت یا پالیٹکس آف اپوزیشن بلاشبہ شیطان کی سنت ہے۔ اتھارٹی سے ٹکرائے بغیر اپنا کام کرنا،یہ ملائکہ کا طریقہ ہے۔ اور اتھارٹی سے ٹکراؤ کر کے پالیٹکس آف اپوزیشن کا ہنگامہ کھڑا کرنا، شیطان کا طریقہ۔عجیب بات ہے کہ یہ منفی سیاست پوری تاریخ میں مسلسل طور پر جاری رہی ہے،اہل ایمان کے درمیان بھی اور غیر اہل ایمان کے درمیان بھی۔ اِس منفی سیاست کا یہ براہ راست نتیجہ ہے کہ انسانی تاریخ،تعمیر کی تاریخ بننے کی بجائے،تخریب کی تاریخ بن گئی۔‘‘(ماہنامہ الرسالہ: مئی ۲۰۱۱ء،ص ۱۸۔۱۹) خان صاحب کو اِس انتہا پسندی تک پہنچانے والے عوامل میں جماعت کے ساتھیوں کی کھچائی کے علاوہ اُن کے اپنے مزاج کا بھی عمل دخل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص میں مزاج کی کچھ خوبیاں اور کچھ کوتاہیاں رکھی ہیں۔ خان صاحب کے کیس کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن مزاج کا ایک اہم وصف ’ضد، بھی ہے۔ ضد میں ایک اعتبار سے مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ یہ انسان کو کسی کام کے کرنے پر اُکسانے اوراُس پر ڈٹ جانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ پس اِس پہلو سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بعض حالات میں ضد انسان کو اُس کے مشن میں پُر عزم رکھتی ہے ،لیکن یہی ضد بے اعتدالی اور غیر متوازن رویوں کا باعث بھی بنتی ہے جیسا کہ ہمیں خان صاحب کی شخصیت میں نظر آتا ہے۔ خان صاحب کی مولانا
Flag Counter