Maktaba Wahhabi

68 - 169
دور نے تاریخ میں پہلی بار وہ چیز پیدا کی ہے جس کو کاربن ایمیشن(carbon emission)کہا جاتا ہے۔ اِس کے نتیجے میں پوری فضا کاربن ڈائی آکسائیڈ سے بھر گئی ہے، جو انسان جیسی مخلوق کے لیے انتہائی حد تک مہلک ہے۔فضائی کثافت کا یہ معاملہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ناقابل تصور تھا۔‘‘(ماہنامہ الرسالہ:مئی ۲۰۱۰ء، ص۵۹) خان صاحب کے بقول فضائی کثافت کا یہ معاملہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ناقابل تصور تھا جبکہ قرآن مجید کے اولین مخاطبین میں بعض فقہاء صحابہ نے اس کا مصداق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کو ہی قرار دیا ہے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ قریش مکہ کے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قبول نہ کرنے پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے خلاف بددعا کی کہ اُن پر ایسی قحط سالی کا عذاب آئے جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی قوم پر آیا تھا۔ پس قریش اِس قحط سالی کی وجہ سے مُردار اور ہڈیاں کھانے پر مجبور ہو گئے اور اُنہیں زمین کی خشکی اور بھوک کے سبب سے زمین و آسمان کے مابین دھواں ہی دھواں نظر آتا تھا۔(صحیح البخاری، کتاب التفسیر، باب سورۃ الروم) پس ’دخان، کا ایک مصداق(confirmation)قریش مکہ پر قحط سالی کا آنے والا عذاب تھا لیکن اِس علامت کا کامل مصداق قیامت سے پہلے ظاہر ہو گا جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہیـ: ((اِنَّھَا لَنْ تَقُوْمَ حَتّٰی تَرَوْنَ عَشْرَ آیَاتٍ: الدُّخَانُ وَالدَّجَّالُ وَالدَّابَّۃُ وَطُلُوْعُ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِھَا وَنُزُوْلُ عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ وَیَاْجُوْجُ وَمَاْجُوْجُ وَثَلَاثُ خُسُوْفٍ خَسْفٌ بِالْمَشْرِقِ وَخَسْفٌ بِالْمَغْرِبِ وَخَسْفٌ بِجَزِیْرَۃِ الْعَرَبِ وَآخِرُ ذٰلِکَ نَارٌ تَخْرُجُ مِنْ قِبَلِ تَطْرُدُ النَّاسُ اِلٰی مَحْشِرِھِمْ))(مسند أحمد: ۲۶؍۶۳ ) ’’قیامت اُس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک کہ دس علامات واقع نہ ہو جائیں۔ دخان ، دجال، دابۃ الارض، سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، نزولِ عیسیٰ ابن مریم، یاجوج ماجوج، تین خسوف، ایک مشرق، دوسرا مغرب اور تیسرا جزیرہ نما عرب میں، اور آخری نشانی وہ آگ ہے جو ایک طرف سے نکلے گی اور لوگوں کو ہانک کر اُنہیں میدان
Flag Counter