Maktaba Wahhabi

52 - 169
درست ہوتا ہے لیکن کچھ اصول وضوابط کے تحت۔ امر واقعہ یہ ہے کہ تاویل کا بھی کوئی قانون اور ضابطہ ہوتا ہے۔ ہر زبان میں تشبیہ وتمثیل(Analogy and Simile)اور مجاز واستعارہ (Trope and Metaphor) موجود ہیں لیکن اِس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ مجاز وتمثیل کے نام پر جس کا جو دل چاہے، مفہوم بیان کر دے۔ قرآن کی باطنی تفاسیر بھی مجاز وتمثیل ہی کے قبیل سے ہیں۔ باطنیہ ہوں یا قادیانی،روافض ہوں یا منکرین حدیث،یہ سب حضرات مجاز وتمثیل کے نام پر ہی اپنے باطل افکار قرآن سے ثابت کرتے ہیں۔ تشبیہ وتمثیل اور مجاز واستعارہ کی حدود کیا ہوں گی؟ اِس کے قواعد وضوابط کیا ہوں گے؟ اہلِ علم نے تو اُن کو طے کر دیا ہے۔ علم اصول فقہ میں ’’قواعد لغویہ عربیہ ،،کی عظیم الشان بحث اور علم بلاغت میں ’’علم بیان،، کا موضوع یہی ہے۔ ذیل میں ہم حقیقت ومجاز کی بحث کے حوالہ سے تین ضوابط بطور مثال بیان کرنا چاہیں گے کہ جن سے مجاز وتمثیل مراد لینے کی حدود کا کسی قدر تعین ہوتا ہے۔ 1۔ کلام میں اصل ’حقیقت‘(True Essence)ہے اور یہ ایک یونیورسل اصول ہے، یعنی ہر کلام سے مراد اس کا حقیقی معنی (Proper Meaning) ہوتا ہے یعنی وہ معنی کہ جس کی ادائیگی کے لیے اہل زبان نے وہ لفظ ایجاد کیا ہے۔ اور مجاز(Figurative Meaning)مراد لینے کے لیے دلیل یا قرینہ چاہیے اور جب تک کوئی دلیل یا ضابطہ یا قرینہ موجود نہ ہو تو مجاز مراد لینا جائز نہیں ہے۔ 2۔کسی لفظ کا حقیقی معنی ایک ہی ہوتا ہے جبکہ مجازی معنی تو کئی ہو سکتے ہیں ۔ پس حقیقت مرادلینے کی صورت میں اختلاف رفع ہو جاتا ہے کیونکہ وہ ایک ہے جبکہ مجاز مراد لینے کی صورت میں اختلاف پیدا ہوتا ہے کیونکہ ہر کسی کا مجازی معنی اپنا ہو گا۔ پس حقیقی معنی کو مجازی معنی پر ترجیح حاصل ہے۔ 3۔ایمانیات اور امور غیبیہ(Metaphysical Issues)کے بارے میں کلام کا اصول یہ ہے کہ اُسے حقیقی معنی پر محمول کیا جائے گا کیونکہ اِس میں مجاز مراد لینے کی صورت میں یہ متعین نہیں ہو سکے گا کہ کس کے بارے میں کیاایمان لانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، اور جب یہی معاملہ مشتبہ ہو کہ کس پر کیا ایمان لانا ہے تو ایمان لانے کا تقاضاہی بے معنی
Flag Counter