Maktaba Wahhabi

50 - 169
فَیَطْلُبُہٗ، فَیُھْلِکُہٗ))(صحیح مسلم،کتاب الفتن وأشراط الساعۃ، باب فی خروج الدجال ومکثہ فی الأرض ونزول عیسی وقتلہ إیاہ) ’’ دجال کا خروج میری اُمت میں ہو گا اور وہ چالیس تک رہے گا۔ راوی کہتے ہیں کہ اب میرے علم میں یہ نہیں ہے کہ چالیس سے مراد چالیس دن ہیں یا چالیس ماہ یا چالیس سال۔ پس اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مبعوث فرمائیں گے گویا وہ عروہ بن مسعود رحمہ اللہ ہیں۔ پس وہ دجال کو تلاش کریں گے اور اُس کو ہلاک کریں گے۔‘‘ اِس روایت میں دجال کو تلاش کر کے ہلاک کرنے کا ذکر ہے جو دجال کے جسمانی قتل کی دلیل ہے۔ ایک اور روایت کے الفاظ ہیں: ((یَقْتُلُ ابْنُ مَرْیَمَ الدَّجَّالَ بِبَابِ لُدٍّ))(سنن الترمذی، کتاب أبواب الفتن، باب ما جاء فی قتل عیسی ابن مریم الدجال) ’’عیسیٰ بن مریم علیہ السلام دجال کو ’باب لُد‘[اسرائیل میں ایک مقام کا نام] پر قتل کریں گے۔‘‘ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اِس روایت کو’صحیح‘ قرار دیا ہے۔(صحیح الجامع الصغیر: ۲؍۹۶۰) اِس روایت میں دجال کے’’باب لُد‘‘ پر قتل ہونے کے کیا معنی ہے؟ نظریاتی یا استدلالی قتل کا ’’باب لُد،،کے ساتھ کیا تعلق بنتا ہے؟جبکہ’لُد‘ فلسطین میں ایک مقام کا نام ہے۔ایک اور روایت کے الفاظ ہیں: ((کَأَنِّیْ أُشَبِّھُہُ بِعَبْدِ الْعُزَّی بْنِ قَطَنٍ))(صحیح مسلم، کتاب الفتن وأشراط الساعۃ، باب ذکر الدجال وصفتہ وما معہ) ’’ گویا میں دجال کو عبد العزیٰ بن قطن کے ساتھ مشابہت دے رہا ہوں۔‘‘ اِسی طرح بعض روایات میں مذکور ہے کہ مدینہ میں موجود ایک شخص ابن صیاد کے بارے میں اُس کی بعض عجیب وغریب حرکات کی بنا پر یہ تاثر صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت میں پھیل گیا کہ وہ دجال ہے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اُس کے قتل کی اجازت چاہی: فَقَالَ عُمَرُ رضی اللّٰہ عنہ دَعْنِیْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ أَضْرِبُ عُنُقَہٗ فَقَالَ النَّبِیُّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم :((إِنْ یَکُنْہُ
Flag Counter