Maktaba Wahhabi

4 - 169
پولیٹکل سسٹم بھی اس کا لازمی جز ہے۔ پولیٹکل سسٹم کو قائم کیے بغیر اسلام ادھورا رہتا ہے،وہ مکمل نہیں ہوتا۔ یہ بظاہر اسلام کا جامع تصور ہے،لیکن حقیقت کے اعتبار سے وہ ایک تخریبی تصور ہے۔‘‘(صبح کشمیر: ص۳۲) ایک اور جگہ لکھتے ہیں: ’’ جہاں تک زمین پر سیاسی غلبہ کا معاملہ ہے، اس کا تعلق تمام تر اللہ تعالیٰ سے ہے۔ قرآن مجید کے مطابق، زمین پر سیاسی غلبہ کا فیصلہ براہ راست اللہ کی طرف سے ہوتا ہے، اور وہ اُسی کو ملتا ہے جس کے لیے اللہ نے اُس کا فیصلہ کیا ہو(۲۶:۳)۔ اِس سے معلوم ہوا کہ سیاسی نظم کے قیام کو نشانہ بنا کر عمل کرنا، ایک مبتدعانہ عمل ہے۔ وہ دین کے نام پر بے دینی ہے۔ وہ اسلام کے نام پر اسلام سے انحراف کرنا ہے۔ اِس قسم کی کوشش کو کبھی بھی خدا کی نصرت نہیں ملے گی، اِس لیے ایسی کوشش کبھی کامیاب ہونے والی نہیں۔‘‘(ایضاً: ص۳۳) ایک اور جگہ لکھتے ہیں: ’’’موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کی تمام بڑی بڑی تحریکیں حیرت انگیز طور پر انتہائی ناکامی کا شکار ہوئی ہیں۔مسلمان جب بھی کوئی تحریک اٹھاتے ہیں تو خدا اُن کے گھروندے کوٹھوکر مار کر گرا دیتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اُن کی یہ تمام سرگرمیاں خدا کی نظر میں بالکل نامطلوب ہیں۔ اِس بنا پر وہ اُن کو حرفِ غلط کی طرح مٹا رہا ہے۔‘‘(راہ عمل: ص ۱۱۰) مذکورہ بالا عبارات بتا رہی ہیں کہ جذبات میں ٹھہراؤ اور اطمینان نہیں ہے اور اختلاف کے اظہار میں ردعمل کی نفسیات واضح طور محسوس ہو رہی ہیں۔ 3۔تجدد: خان صاحب کے افکار ونظریات میں تجدد پسندی(Modernity)کی طرف میلانات اور رجحانات بہت زیادہ پائے جاتے ہیں اور صحیح معنوں میں اُن پر لفظ متجدد اس اعتبار سے صادق آتا ہے کہ اُنہوں نے دین کے بنیادی تصورات کی اَز سر نو ایسی تعبیر وتشریح پیش کی ہے جو اُن سے پہلے کسی نے نہیں کی اور وہ نہ صرف اِس بات کو تسلیم کرتے ہیں بلکہ اپنے لیے اِس میں فخر بھی محسوس کرتے ہیں۔خان صاحب لکھتے ہیں: ’’ پچھلے ہزار سال میں مسلمانوں کے درمیان جو لٹریچر تیار ہوا، اُس میں سب کچھ
Flag Counter