Maktaba Wahhabi

154 - 169
لامحدود خواہشات کی تکمیل نہیں ہو سکتی، اِس لئے جو لوگ موجودہ دنیا میں اپنی خواہشات کو لامحدود طور پر پورا کرنا چاہیں، وہ ہمیشہ بے اطمینانی کا شکار رہیں گے۔‘‘(ماہنامہ الرسالہ: نومبر ۲۰۰۹ء، ص۳۹) موجودہ دور میں مادہ پرستی(materialism)کے فتنے کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’موجودہ زمانے کا اصل فتنہ مال ہے۔ آج کل ہر آدمی زیادہ سے زیادہ مال کما رہا ہے۔ اِس مال کا مصرف والدین کے نزدیک صرف ایک ہے، اور وہ ہے گھر کے اندر ہر قسم کے راحت کے سامان اکھٹا کرنا، اور بچوں کی تمام مادی خواہشوں کو پورا کرنا۔ موجودہ زمانے میں یہ کلچر اتنا زیادہ عام ہے کہ اِس معاملے میں شاید کسی گھر کا کوئی استثنا نہیں، خواہ وہ بے ریش والوں کا گھر ہو، یا باریش والوں کا گھر۔ والدین کے اِس مزاج نے ہر گھر کو مادہ پرستی کا کارخانہ بنا دیا ہے۔ تمام والدین اپنے بچوں کے اندر شعوری یا غیر شعوری طور پر مادہ پرستانہ ذہن بنانے کے امام بنے ہوئے ہیں۔ اِسی کے ساتھ والدین یہ چاہتے ہیں کہ اُن کے بچے آخرت کی جنت سے بھی محروم نہ رہیں۔ اِسی مزاج کے بارے ایک اردو شاعر نے کہا تھا ۔ رند کے رند رہے، ہاتھ سے جنت نہ گئی۔ ،،(ماہنامہ الرسالہ : اکتوبر ۲۰۰۹ء، ص۱۱) ایک اور مقام پر لکھتے ہیں: ’’یہ کسی ایک نوجوان کی بات نہیں۔ یہی موجودہ زمانے میں تقریباً تمام لوگوں کا حال ہے۔ بظاہر ایک آدمی دین داری کی بات کرے گا۔ وہ اسلام کو اپنی منزل بتائے گا۔ لیکن اگر اُس کو کسی قسم کی مادی ترقی حاصل ہو جائے، تو اچانک وہ بدل جائے گا۔ وہ تمام باتوں کو بھلا کر مادی ترقی ہی کو اپنا سب کچھ بنا لے گا۔‘‘(ماہنامہ الرسالہ: نومبر ۲۰۰۸ء، ص ۲۳) اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا نہ کرنے کے رویے کے بارے لکھتے ہیں: ’’آج کل یہ رواج ہے کہ ایک شخص پیسہ کمائے گا اور اُس کے بعد وہ ایک کار خریدکر اپنے بیٹے کو دے گا۔ کار کے شیشہ پر لکھا ہو اہو گا۔ باپ کی طرف سے تحفہ(Dad's Gift)۔ یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ ناشکری کا کلمہ ہے۔ ایک نعمت جو حقیقہً خدا کی طرف سے ملی ہے، اُس کو خدا کی طرف منسوب نہ کرنا، بلکہ اُس کو خود اپنے کمالات کے خانے میں ڈال دینا، یہ خدا کے
Flag Counter