Maktaba Wahhabi

64 - 222
(۱۵)بہت سی اسانید سے جناب ام سلمہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے،فرماتی ہیں:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !عورتیں اپناکپڑا کس حد تک نیچے لٹکائیں؟فرمایا:ایک بالشت ۔ عرض کیا:اس سے توان کے پاؤں ظاہر ہونے کا اندیشہ ہے ؟فرمایا :ایک ہاتھ لٹکالیا کریں، اس سے زیادہ نہیں۔[1] اس حدیث میں بڑا واضح اشارہ موجود ہے، جو عورت کے چہرہ کو وجوباً ڈھانپنے کا متقاضی ہے ؛کیونکہ جب پاؤں تک کو ڈھانپنا ضروری سمجھا جاتا تھا ،تو چہرہ کہیں زیادہ ضروری قرار پائے گا،اس حدیث میں شارععلیہ السلام نے ادنیٰ (یعنی قدموں کوڈھانپنا) کے ذریعے،اعلیٰ(یعنی چہرے کوڈھانپنا)کی جانب متوجہ ومتنبہ فرمایاہے۔ (۱۶)اعتبارِ صحیح اور عقلِ سلیم وجلی،بھی اسی مؤقف کے مؤید ہیں ۔ چنانچہ جوشخص بھی درء المفاسداور جلب المصالح(یعنی :ہرمفسدہ اور خرابی والی چیز کو چھوڑ دینا اور مصلحت وفائدہ والی چیز کو اختیار کرلینا ) جیسے عظیم شرعی قاعدے کا ادراک رکھتا ہے، اور اس قاعدے کی روشنی میں شریعت کے مقاصد وحِکَم سے پوری طرح آگاہ ہے (وہ یقیناً چہرے کے پردے کے وجوب کا قائل ہوگا) کیونکہ ہرشخص جانتاہے کہ چہرے کی بے پردگی کے مفاسد بے تحاشاہیں،جب کہ مصلحت کوئی بھی دکھائی نہیں دیتی،اور چہرے کو ڈھانپے رکھنے کی مصلحتیں بے شمار ہیں اور خرابی کوئی بھی دکھائی نہیں دیتی۔(توپھر مصالح کو مفاسد پر مقدم کرنے والے قاعدے کے تحت یقینی طور پرعورت کے چہرے کے حجاب کا قول اختیار کرنا پڑے گا) ذرا شریعت کی شدتِ احتیاط ملاحظہ کیجئے،کس طرح عورت کیلئے اس کے قدم تک کی بے پردگی حرام قراردی، پازیب کی آواز تک کے اظہارکو ناجائز قراردیا،بوڑھی
Flag Counter