قاضی عش عش کراٹھا اورکہا:اس واقعہ کو ہمیشہ کیلئے مکارم الاخلاق میں تحریر کردیاجائے۔[1] شیخ شنقیطي رحمہ اللہ فرماتے ہیں:ذراایک شاعر کی ہذیان گوئی تو ملاحظہ کیجئے: قلت اسمحوا لي أن أفوز بنظرۃ ودعوا القیامۃ بعد ذاک تقوم یعنی:میں نے کہا : اپنی محبوبہ پرصرف ایک نظر ڈالنے دو ،اس کے بعد قیامت بھی آتی ہے تو آنے دو۔ (شیخ فرماتے ہیں)اے اللہ کے بندے!کیا تو یہ نگاہ اپنے گھر کی عورتوں اور بہنوں پرڈالنے دیگا؟کسی شاعر نے کیاخوب کہا ہے: وما عجب أن النساء ترجلت ولکن تأنیث الرجال عجاب یعنی:تعجب یہ نہیں کہ عورتیں مرد بننے کی کوشش کررہی ہیں، تعجب یہ ہے کہ مردوں نے عورتوں کا روپ دھارلیا۔[2] جولوگ عورتوں کے چہرہ کوبے پردہ رکھنے کے جواز کے قائل ہیں،میں نے ان کے دلائل کا بغور جائزہ لیا،وہ دلائل ایسے ہیں کہ اگر ان میں بولنے کی صلاحیت ہوتی تو وہ خود ہی اس بے راہ روی کے مذہب سے برأت کااعلان کردیتے، وہ دلائل ان کے حق میں جانے کے بجائے،ان کے سراسر خلاف ہی جارہے ہیں ،لہذا جولوگ عورتوں کے چہرے اور ہاتھوں کے پردے کے وجوب کے قائل ہیں،وہ ان دلائل سے قطعاً پریشان نہ ہوں۔ عورتوں کے چہرے سے حجاب ہٹانے والوں کا معاملہ کس قدر تعجب خیز ہے کہ |
Book Name | چہرے اور ہاتھوں کا پردہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ علی بن عبداللہ النمی |
Publisher | مکتبۃ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 222 |
Introduction | زیر نظر کتاب علی بن عبداللہ النمی کی تالیف ہے اور اس کا اردو ترجمہ فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی صاحب حفظہ اللہ نے کیا ہے، اس کتاب میں خواتین کے پردے کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی گئی ہے، اس میں ایسے تمام شبہات کا تعاقب کیا گیا ہے جن پر ان لوگوں کا اعتماد تھا جو مسلم خاتون کو بے پردگی کی دعوت دینے میں کوشاں و حریص ہیں،کتاب بنیادی طور پر دو ابواب میں منقسم ہے ، ایک باب میں ان شبہات کا جائزہ لیا گیا ہے جو چہرے کے پردے سے متعلق ہیں اور دوسرا باب ہاتھوں کے ڈھانپنے کے وجوب سے متعلق شہبات کے ازالے پر مشتمل ہے۔ |