وَ دِرْعُہٗ عِنْدَ یَہُوْدِيٍّ عَلٰی آصُعٍ مِنْ شَعِیْرٍ۔
ان لوگوں کی مانند جو اپنے گھروں اور مالوں سے نکالے گئے اور غریب الوطن ہوئے۔ انہیں دی جانے والی تکلیف بہت زیادہ اور ان کی ابتلاء بہت شدید ہوئی۔ ان کے دشمن تعداد میں بہت زیادہ ہو گئے، تو وہ کچھ جگہوں میں مغلوب ہوئے۔ اُن میں سے شہید ہونے والے احد[1] اور بئر معونہ[2]میں شہید کیے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرۂ (مبارک) زخمی کیا گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چار دانت توڑے گئے۔ خَود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سر (مبارک) میں ٹوٹی۔ آپ کے قرابت داروں کو شہید کر کے ان کا مثلہ کیا گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں نے خوشیاں منائیں اور آپ کے احباب غمگین ہوئے۔ غزوہ خندق میں آزمائش میں مبتلا کیے گئے اور انتہائی سخت جھنجھوڑے گئے، آنکھیں چُندھیا گئیں اور دل (شدّتِ غم کی بنا پر) گلے کو پہنچ گئے۔[3] وہ مسلسل خوف، مستقل بے لباسی (یعنی مناسب لباس کا میسر نہ آنا) اور اس قدر شدید مفلسی میں زندگی بسر کر رہے تھے، کہ انہوں نے بھوک کی وجہ سے اپنے پیٹوں پر پتھر باندھے اور سیّد الاولین و الآخرین صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی دن میں پیٹ بھر کر دو وقت گیہوں کی روٹی نہیں کھائی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قسم قسم کی اذیتیں دئیے گئے، یہاں تک کہ اُن کے کنبے میں سے اُن کے محبوب ترین فرد پر تہمت لگائی گئی۔[4] پھر آخرکار مسیلمہ،[5] طلیحہ[6] اور عنسی[7] کے ساتھ آزمائش میں ڈالے گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کے صحابہ کو جیشِ عسرت (یعنی تنگی کا لشکر) میں کس قدر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔[8] آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا، تو اس وقت اُن کی درع ایک یہودی کے پاس جَو کے کچھ صاعوں کی بنا پر بطور رہن تھی۔
|